خوش آمدید قارئین
میں ان تمام قارئین کی شکرگزار ہوں جو ایک لمبے عرصے سے نا صرف میرے ساتھ ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً میری غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہیں اور اپنے پیغامات کے ذریعہ نئی تحاریر لکھنے کی خواہش بھی کرتے ہیں۔
انھی قارئین کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیوں نہ مل کے اپنے اس تعلق کو مزید گہرا اور مظبوط بنایا جائے۔ لفظ میرے ہوں اور تصورات آپکے، پھر سے تجسس کی ایک رنف برنگ دنیا سجاتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔
آپکی اپنی لکھاری
زویا حسن
نئے سفر، نئے سلسلے
ترکِ آشنائی کے پہلے حصے میں قارئین پڑھ چکے ہیں کہ کیسے تانیہ اپنے بابا خاور الیاس کی وفات کے بعد جب واپس لوٹی تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ تانیہ کو بچپن سے یہی بتایا گیا تھا کہ اسکی والدہ کی اسکے بچپن میں ہی وفات ہوگئی تھی۔ لیکن باپ کی وصیت سے یہ راز سامنے آیا کہ اسکی ایک اور بہن ہے ، وصیت کے مطابق جسے ڈھونڈنا بہت ضروری ہے۔ ماں اور بہن کی تلاش میں تانیہ کو انتہائی کٹھن رستوں پہ چلنا پڑا۔ حمدان نے اس کا بہت ساتھ دیا ۔ بلآخر وہ اپنے ننھیال تک پہنچی ۔۔ اپنی نانی جان تک پہنچنے کے بعد اسے اس درد ناک حقیقت کا سامنا کرنا پڑا کہ کیسے اسکی ماں کی اس دنیا سے چلی بسی اور اسکی چھوٹی بہن نے بھی ایک بیٹا جنم دے کے خود کشی کرلی۔ وہ نانی اور بہن کے بیٹے کو اپنے ساتھ تو لے آئی لیکن یہ راز اب بھی راز ہی تھا کہ کیسے ثمانہ نے خود کشی کی۔۔۔۔۔۔۔
ترکِ آشنائی (حصہ دوم) کا زاویہ ترکِ آشنائی کے پہلے حصے سے بالکل مختلف ہے۔ امید ہے آپکو پڑھنے میں مزہ آئے گا. پڑھنے کے لیے نیچے دی گئی اقساط پہ کلک کریں۔
تازہ تحاریر
محض دلاسا
“سدرہ نے خود کشی کرلی۔۔۔ “
دھک سے دروازہ کھلا ۔۔ نیلم خالہ نے آتے ہی ہیبت ناک خبر سنائی۔ امی چھوٹے کا سویٹر بن رہی تھیں انکے ہاتھ وہیں رک گئے۔ میں اتنی حواس باختہ ہوئی ٹی وی کا والیم کم کرنے کے بجائے بڑھا دیا۔ کچھ لمحوں کے لیے تو ہم سب سکتے میں آگئے تھے۔
“کیسے۔۔۔ ؟ کیوں۔۔۔ ؟”
سدرہ آپی ہنس مکھ اور ملنسار تھیں۔ اس بات پہ یقین کرنا ناممکن تھا کہ انھوں نے خود کشی کرلی۔ گلی میں شور برپا تھا۔ شائد سدرہ کے گھر والے پہنچ گئے تھے۔ امی نے چادر لی اور خالہ کے ساتھ ان کی طرف نکل پڑیں۔ میں دروازے سے باہر جھانکے لگی۔ سدرہ کی والدہ گلی میں ہی گھٹنوں کے بل بیٹھیں چھاتی پیٹ رہی تھیں ان کی دردناک دھاڑیں اور بین جگر چھلنی کررہے تھے۔ میری تو سانسیں بھاری ہونے لگیں۔ دروازہ بند کرکے میں برآمدے میں دبک کے بیٹھ گئی۔
دو سال ہی ہوئے تھے شادی کو انھوں نے تو سسرال تو کیا محلے داروں کے دلوں میں بھی گھر بنا لیا تھا۔ آئے دن سدرہ کے گھر سے کبھی کھیر آرہی ہے تو کبھی بریانی۔ پڑوس میں پڑھی لکھی بہو آجائے تو محلے کی عورتیں کا سب سے پہلا مطالبہ ہی یہی ہوتا ہے کہ میرے بچے کو فری میں ٹیوشن پڑھا دے۔ انھوں نے اس کے لیے بھی کبھی کسی کو منع نہیں کیا ۔
“سدرہ نے خودکشی کیوں کی ہوگی۔۔ ایسی ہنس مکھ جوان لڑکی کیوں زندگی قربان کرے گی۔۔؟ ”
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا ۔ دن ہفتوں میں بدلنے لگے۔ سدرہ کی موت سے متعلق ہر شخص کا اپنا ہی نظریہ تھا۔ کسی کی سوچ تھی کہ قتل کا کیس ہے اور کوئی ساس سسر اور خاوند کے رویے کے بارے میں نئی کہانی گھڑ کے سنا دیتا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مجھے اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ سدرہ نے خود کشی ہی کی ہے۔ کیوں کہ میں نے اپنے کانوں سے کچھ ایسا سنا تھا جو شائد کسی اور نہ سنا ہو۔
ہسٹری کے نوٹس بنانے میں مجھے ان کی مدد چاہیے تھی شام میں جب میں ان کے ہاں گئی تو انکی ساس نے بتا یا وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ میں دروازے تک پہنچی تو اندر سے رضا بھائی کی آواز آرہی تھی۔۔ میں واپس مڑنے ہی لگی تھی تو احساس ہوا شائد دونوں میاں بیوی کے درمیان کسی بات پہ بحث ہورہی ہے۔۔ آس پاس کوئی موجود نہیں تھا روایتی خصلت کی بدولت میں دروازے سے کان لگا کے سننے لگی۔
“میں جاب کروں گی تو اس گھر کا ہی بھلا ہوگا۔۔ ابا جی سے بات کیوں نہیں کرتے۔۔”
“وہ نہیں مانیں گے۔۔ کیسے سمجھاوں تمہیں۔۔ سدرہ تمہارے اور میرے گھر کے ماحول میں زمین آسمان کے فرق ہے۔ ۔”
“ٹھیک ہے اگر تم یہی چاہتے ہو تو ۔۔ لیکن یاد رکھنا میں ایسے ہی گھٹ گھٹ کے خود کشی کرلوں گی۔۔ اور اسکے ذمہ دار تم ہوگے۔۔ “
“سدرہ تم پاگل ہو گئی ہو۔۔ ہر روز تم خود کشی کرنے دھمکی دیتی رہیتی ہو۔۔ “
“یہ دھمکی سچ بھی ہوسکتی ہے۔۔ “
میں اتنا ہی سن پائی ۔ اس سے پہلے وہاں کوئی آتا میں واپس چلی گئی ۔
اس وقت مجھے یہ میاں بیوی کے درمیان ہونے والی روزمرہ کی نوک جھونک لگی۔ جسے میں نے بالکل سنجیدہ نہیں لیا۔ لیکن اب لگتا ہے شائد سنجیدہ لینا چاہیے تھا۔ ایک خلش سی ہے دل میں کہ شاید میں ان سے ایک بار بات کرلیتی انھیں سمجھا لیتی۔
سدرہ کی خود کشی کرنے وجہ کسی اور کے لیے بہت معمولی سی کیوں نہ ہو لیکن اس نے اس خواہش کو دماغ پہ اس حد تک سوار کرلیا تھا کہ زندگی اسکے سامنے چھوٹی پڑ گئی۔ کوئی انسان چاہے جتنا سمجھدار کیوں نہ ہو لیکن جب وہ چیزوں کے بیچ توازن کرنے میں ناکام ہونے لگے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آس پاس کے لوگوں اسکی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔
ایک ریسرچ کے مطابق جب لوگ بار بار خوش کشی کرنے کی بات کرتے ہیں تو چاہے وہ یہ بات صرف دھمکی دینے کی غرض سے ہی کیوں نہ کر رہے ہوں لیکن اس چیز کے چانسز بڑھ جاتے ہیں کہ شائد کسی موڑ پہ وہ یہ قدم اٹھا لیں گے۔ اس کے پیچھے ایک ہی وجہ کار فرما ہوتی ہے کہ جب ہم کسی حساس چیز کے بارے میں بار بار بات کرتے ہیں تو دماغ اس چیز کو نارمل لینے لگتا ہے اور انسان وہ کرجاتا ہے جس کا کوئی اور تصور بھی نہیں کرسکتا۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد کسی شخص کو ایسے کسی تناو میں دیکھیں تو اس کی مدد کریں۔ اور مدد کا طریقہ صرف ایک ہے وہ ہے انھیں اس بات کا ااحساس دلانا کہ زندگی سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں ہے اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا حل نہ ہو۔
اپنی اور اپنے چاہنے والوں کی زندگی کے بے مول ہونے سے بچائیں۔
تحریر: زویا حسن
دوستوں سے شئیر کریں
نفرت کا بیج
ایک بچے کی زندگی میں نفرت کا پہلا بیج والدین بوتے ہیں۔ کئی لوگ شائد میری اس بات سے متفق نہ ہوں لیکن حقیقت یہی ہے۔ نفرت پرورش کے ساتھ پروان چڑھتی ہے۔ پھوپھو، تائی، چچی اور ممانی معاشرے کے وہ کردار ہیں جن کے بارے سب سے زیادہ منفی سوچ پائی جاتی ہے۔ کبھی سوچا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟
انسان کی سوچ پہلے سے متعین زاویے پہ ہی کا م کرتی ہے۔ یہ زاویہ مثبت اور منفی دونوں صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ اگر ایک پل کے لیے آپ آنکھیں بند کریں اور یہ سوچیں کے مجھے اپنے ارد گرد سرخ رنگ نظر آئے ۔ جب آپ آنکھیں کھولیں گے تو حد نگاہ میں جہاں جہاں بھی سرخ رنگ ہوگا وہی خود بخود ہی نظر آنے لگے چاہے پھر وہ ایک معمولی نکتے کی صورت میں کیوں نہ ہو اپنے ہونے کا احاس دلائے گا۔ سرخ رنگ کی تلاش میں آپکا دھیان کبھی نیلے، پیلے، ہرے رنگ پہ نہیں جائے گا۔ ایسا اس لیے ہے کہ آپ نے اپنے دماغ میں ایک زاویہ متعین کرلیا ہے جس کی وجہ سے آپ صرف وہی دیکھ سکتے ہو جو آپ دیکھنا چاہتے ہو۔
پھوپھو، تائی، چچی اور ممانی کے بارے میں منفی سوچ بھی دراصل اسی منفی زاویے کا نتیجہ ہے۔ آپ ان میں نفرت ڈھونڈو گے تو نفرت نظر آئے گی، حقارت ڈھونڈو گے تو حقارت نظر آئے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زاویہ سیٹ کون کرتا ہے؟ جیساکہ میں نے پہلے کہا کہ والدین۔۔ جی ہاں۔۔ یہ کہانی اتنی ہی سادہ ہے۔ ان کرداروں کا منفی تذکرہ اس عمر میں کیا جاتا جب بچے کا دماغ بالکل ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے۔ جیسے جیسے بچہ لڑکپن سے جوانی اور پھر ادھیڑ عمری کی طرف جاتا ہے نفرت کا یہ زاویہ صرف ان کرداروں پہ محیط نہیں رہیتا بلکہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اور پھر انسان رشتہ داروں سے ہٹ کہ پڑوس، سوشل سرکل اور پروفیشنل زندگی میں بھی سب کچھ اسی زاویے میں دیکھتا اور سوچتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتی کہ ایسے انسان صرف منفی سوچ ہی رکھتے ہیں۔ ان میں مثبت سوچ بھی ہوتی ہے۔ جس کا تناسب کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس منفی سوچ سے پاک ہونا ناممکن ہے۔ اگر زندگی میں دو لوگوں کو آپ اچھا سمجھتے ہیں تو ایک دو برے لوگ بھی آپکی لسٹ میں ضرور ہوں گے۔ اور یہ برے کردار صرف شکلیں بدلتے رہیں گے۔ کبھی پھوپھو اور تائی کی صورت میں تو کبھی آفس کولیگ یا محلے دار کی صورت میں۔۔۔
کئی بار نفرت کی لپیٹ میں وہ خود بھی آجاتے ہیں جنھوں نے یہ بیج بویا ہوتا ہے۔ اولاد جب والدین سے نفرت کرنے لگے تو ان کے پاس اس نفرت کی کئی وجوہات ہوں گی۔ لیکن اس وجہ کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا جو دراصل اس نفرت کی جڑ ہے۔۔ اور وہ ہے دوران پرورش رشتہ داروں سے متعلق منفی سوچ ۔ چاہے آپکی نفرت بالکل جائز کیوں نہ ہو لیکن وہ آپکے بچے لیے نا جائز ہے۔ ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے۔
آپ کیا کہتے ہیں؟؟
تحریر: زویا حسن
Love Brain Syndrome
چائنہ میں ایک اٹھارہ سالہ جوان لڑکی کو ہسپتال لایا گیا ۔ جس میں ایک دماغی بیماری کی تشخیص ہوئی جسے “لؤو برین” کا نام دیا گیا۔ دراصل وہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ پہ اتنی منحصر ہوچکی تھی کہ اس سے بات کیے بنا وہ رہ نہیں سکتی تھی۔ کئی بار جب وہ اس سے بات نہیں کرپاتا تو وہ گھر کی چیزیں توڑنا شروع کردیتی اور زور زور سے چلاتی۔ جب اس نے ایک دن میں قریب سو دفعہ کال کی اور بوائے فرینڈ نے کال کا جواب نہیں دیا تو اس نے بالکونی سے کود کر خود کشی کرنے کی دھمکی دی۔ بوائے فرینڈ نے ڈر کر پولیس رپورٹ کردی اور اسکی ایسی حالات دیکھ کر فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔
آپ کے ارد گرد بھی ایسے بہت سے کیسز موجود ہوں گے۔ ہم ایسے لوگوں کا مذاق اڑا کے ان کے بارے میں غلط رائے تو قائم کرلیتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس دماغی تناؤ سے گزر رہے ہیں۔ دوست بھی زیادہ سے زیادہ تسلی دیتے یا سمجھاتے ہیں یا پھر اسے اسکے حال پہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس بیماری علاج تو ابھی اس طرح سے دریافت نہیں ہوا لیکن ہم اپنے برتاؤ سے ایسے انسان کو اس دلدل سے بچا سکتے ہیں۔
تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ ایسے لوگوں کا ماضی تاریک ہوتا ہے ، انھیں ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہوتا اور خاص طور پر والدین سے حقیقی پیار نہ ملنا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ جوانی میں پہنچ کر جب انھیں کوئی پیار کرنے والا شخص مل جاتا ہے تو وہ جذباتی لحاظ سے اس سے اتنے جڑ جاتے ہیں کہ انھیں وہ انسان کم اور ذاتی جاگیر زیادہ لگنے لگتا ہے۔ اور یہیں سے تناؤ پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو کسی اور کے اشاروں پہ جینا چاہے گا۔ کچھ لوگ تو چھوڑ کے چلے جاتے ہیں اور کچھ ا س انسان کی ایسی دماغی حالت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور انھیں ایسے کاموں پہ مجبور کردیا جاتا ہے جسے کرنے کا انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔
صحیح معنوں میں صرف گھر والے اور قریبی دوست ہی ایسے شخص کو سنبھال سکتے ہیں اور اسے اس دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ آپکی ذرا سی توجہ کسی کی زندگی بدل سکتی ہے۔ انھیں نظر انداز نہ کریں۔
آپکی کیا رائے ہے؟
تحریر: زویا حسن
پھسلن
جذبات کھائی کی مانند ہوتے ہیں اور سوچ وہ پھسلن ہے جو اس کھائی کی تاریک گہرایو ں میں اس حد تک دھکیل دیتی ہے کہ ا نسان اپنا آپ کو کھو دیتا ہے۔ وہ اپنا اصل بھول جاتا ہے۔
ہمدرد اکثر آپ کو مشورہ دیتے ہوں گے کہ جذبات کو قابو میں رکھنا سیکھو۔ لیکن قصور جذبات کا نہیں۔۔ جذبات بے قابو تب ہوتے ہیں جب ہم انھیں اپنی سوچ سے دن رات سینچتے ہیں اور اسی سوچ سے ہی جذبات دیکھتے ہی دیکھتے تنا آور درخت کی مانند آسماں کو چھونے لگتے ہیں۔ اور تب جذبات کی ٹھنڈی چھاؤں جلتے انگاروں کی حدت میں بدل جاتی ہے۔ اور یہی سوچ کے انگارے انسان کو اندر سے جلا کے راکھ کردیتے ہیں ۔ اور اس راکھ میں سب کچھ خاک ہوجاتا ہے۔
اس لیے جذبات سے کہیں زیادہ ضرور ی ہے سوچ کا قابو میں ہونا۔ اور ایک بار سوچ قابو میں آگئی تو جذبات کی شدت خود بخود ہی کنٹرول میں آجاتی ہے۔ او ر تب انسان حقیقی زندگی اور جذبات کے بیچ میں توازن برقرار رکھ پاتا ہے۔ اور توازن ہی بہترین زندگی کی علامت ہے۔
آپ کیا کہتے ہیں؟؟
تحریر: زویا حسن
غیر معمولی بوجھ
ایک سیشن کے دوران ماہر نفسیات نے ہاتھ میں پانی کا گلاس اٹھایا اور سامنے بیٹھے لوگوں سے مخاطب ہوا۔ عمومی طور پر اس طرح کی صورت حال میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے بتائیں گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا ہے۔ لیکن غیر متوقع طور پر ماہر نفسیات کا سوال تھا
“بتائیں اس گلاس کا وزن کتنا ہوگا؟”
سب نے اندازے کی بنیاد پر اس گلاس کا وزن بتایا۔ کسی نے کہا دو سو گرام تو کسی نے کہا ڈھائی سو گرام۔ لیکن ماہر نفسیا ت نے ایک انتہائی اہم نکتہ اٹھایا۔
“اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس گلاس کا حقیقی وزن کتنا ہے۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ اسے میں کتنی دیر تک ہاتھ میں اٹھائے رکھ سکتا ہوں۔ اگر میں اسے بس ایک منٹ ہی اٹھائے رکھوں تو اس سے مجھ کچھ محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن اگر میں اسے ایک گھنٹہ اس حالت میں اٹھائے رکھوں تو میرا بازو درد کرنے لگے گا۔ ا سی طرح پورا دن اٹھا ئے رکھنے سے مجھے شدید تکلیف ہوگی اور عین ممکن ہے میرا بازو مفلوج ہوجائے۔
ماہر نفسیات کی بات بہت گہری تھی۔ کئی بار ہم انتہائی چھوٹی چیزوں کو اپنے دماغ پہ اتنا سوار کرلیتے ہیں اور کئی کئی دنوں تک بلاجواز انھی کے بارے میں سوچتے رہیتے ہیں۔ خواہ وہ کسی شخص کے بارے میں منفی سوچ ہو یا پھر انتہائی غیر اہم مسئلہ جس کے بارے میں تھوڑی دیر سوچنے سے تو شائد کوئی فرق نہ پڑے۔۔ لیکن پہروں بیٹھ کے اسی بارے میں سوچنا دماغ کو مفلوج کردیتا ہے۔ اسی لیے اپنی سوچ میں توازن لا نا انتہائی ضروری ہے۔
آپ کیا سوچتے ہیں اس بارے میں۔۔۔؟
تحریر: زویا حسن
حیض
حیض ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں بات کرنے سے لوگ آج بھی کتراتے ہیں۔ حالانکہ لڑکی جب سنِ بلوغت میں پہنچتی ہے تو اسے اس سے متعلق تعلیم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ عمر کے اس حصے میں جسمانی اور دماغی تبدیلیاں اتنی تیزی سے رونما ہورہی ہوتی ہیں جن کے بارے میں علم ہونا انتہائی ضرروی ہے۔
اور ہمارے معاشرے میں ماں اپنی بیٹی کو سب سے پہلی تعلم ہی یہی دیتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے چھپانا بے حد ضرورری ہے۔ جہاں ضرورت ہوتی کہ بلوغت کے دوارن ہونے والی تبدیلیاں کیوں ہوتی ہیں اور کچھ مسائل جنم لیں تو ان کا حل کیا ہے۔ لڑکی کو ایک باقاعدہ مینٹل گروتھ اور رہنمائی چاہیے ہوتی ہے۔ لیکن سب کچھ اس کے الٹ ہی ہورہا ہوتا ہے۔ لڑکی کو احساس دلایا جاتا ہے یہ اتنی بری چیز ہے جس کا پتا چلنا شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔
یہی وہ سوچ ہے جو لڑکی کے دماغ میں ایسی بیٹھ جاتی ہے کہ وہ عمر کے جس حصے میں کیوں نہ پہنچ جائے لیکن حیض اور اس جیسے زنانہ مسائل کے بارے میں کھل کے بات کرنے سے کترارتی ہے۔
حالانکہ آج کے ماڈرن دور میں لوگوں کی سوچ ان چیزوں کے بارے میں تبدیل ضرور ہوئی ہے لیکن ابھی بھی مڈل کلاس اور نیچے کے طبقات میں ماؤں کی سوچ میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔
اب بھی جوان لڑکیوں کو اپنے لیے سینیٹری پیڈز لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کے لیے ریزر ز تو کیش کاؤنٹر پہ لٹکے ہوئے ملیں گے لیکن لڑکیوں کے لیے ہیر ریوموول پراڈکٹس کا سیکشن ایک کونے میں بنا ہوگا ۔ اس سب کی وجہ صرف اور صرف تعلیم کی کمی ہے۔
میرے خیال میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ماؤں کو بھی ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جہاں انھیں سکھایا جا سکے کہ زنانہ مسائل کو گناہ کا درجہ دینے سے بہتر ہے اسکے بارے میں پوری معلومات ہوں۔ جو آپ کی بیٹی کے صحت اور زندگی کے لیے انتہا ئی ضروری ہے۔
آپ کیا سوچتے ہیں اس بارے میں، اپنی رائے ضرور دیجیئے۔
تحریر: زویا حسن
کر ۔۔۔ برا۔۔۔ ہو۔۔۔ برا
آج جب خالہ سے میں نے انکی چھوٹی بیٹی کے بارے میں پوچھا کہ شادی کے بعد کیسی زندگی گزر رہی تو جواباً انھوں نے رونا شروع کر دیا
“کیا بتاؤں۔۔ میری بچی تو انگاروں پہ زندگی گزار رہی ہے۔۔ “
“خالہ جب آپکو پتا تھا۔۔ وہ خاتون ایسی ہیں تو ایسے گھر میں شادی کیوں کردی۔۔ “
میں نے حیران ہو کے پوچھا
“کیا کرتی بیٹا۔۔ کہاں ملتے ہیں اچھے رشتے۔۔۔ لڑکا اچھا لگا تھا۔۔ سوچا زندگی اچھی گزر جائے گی۔۔ لیکن سسرالیوں نے اسے ایک دن بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔۔۔ میں تو بس اپنی بچی کو یہی تسلی دیتی ہوں کہ۔۔ صبر کرو۔۔ تمہاری ساس کی بھی ایک بیٹی ہے۔۔ جو ظلم وہ تم پہ کررہی ہے۔۔ اسکی بیٹی “کے ساتھ اس سے بھی برا ہوگا
مجھے یہ جان کے حیرت ہوتی ہے کہ شادی کے بعد جن لڑکیوں کو سسرال اور خاص طور پر ساس سے وہ مقام اور عزت نہیں ملتی جس کی وہ حقدار ہوتیں ہیں اور وہ اپنے حق کے لیے لڑ نہیں سکتیں تو ان کی مائیں ایسی ہی تسلیاں کیوں دیتی ہیں۔۔ ؟
آپ ہی بتائیے۔۔۔ یہ کیسے مکافات عمل کی امید ہے جس کا اثر اس انسان پہ پڑے جو شائد اس گناہ کا حصہ دار بھی نہ ہو۔ جیسے ساس کی بیٹی۔۔۔ فرض کریں ساس کی بیٹی کے ساتھ وہ سب ہو بھی جائے جس کی امید آپ کررہے ہیں۔ تو اس سے آپکی زندگی پہ کیا فرق پڑے گا۔۔ ؟
یا پھر یہ غلط فہمی ہے کہ ساس کو احساس ہوجائے گا کہ میں نے کسی کی بیٹی کے ساتھ برا کیا اس لیے میری بیٹی کے ساتھ برا ہورہا ہے۔ ایسا قصے کہانیوں یا ڈراموں میں تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں یہ تقریباً ناممکن ہے۔ کم از کم میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی کیس نہیں دیکھا۔ لوگ مرتے دم دے تک اس بھرم میں رہتے ہیں کہ زندگی میں انھوں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک کیا۔ عین ممکن ہے کہ اس بات کا احساس ہو جائے کہ کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن اسکا اقرا ر کبھی کوئی انسان نہیں کرتا۔
بجائے اسکے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو زمانے سے لڑنا سکھائیں۔ حالات کا مقابلہ کرنا اور ہر مسئلے کا حل سمجھائیں۔ ہم اسے ایسی تاریک خیالی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں کہ بس وہ کسی اور کے ساتھ برا ہونے کا انتظار کرے۔
یہ تو یوں ہے کہ کسی اور میں انسانیت کھوجتے کھوجتے اپنی ہی انسانیت گنوا دیں۔
آپکا کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔۔ ؟
یقین
جب میں آگے نکل آئی اور میرے ذات مجھے سے دور کہیں پیچھے رہ گئی تو میں نے زندگی کی لگام ایک پل کے لیے کَسّی اور گزرے وقت کے سمندر میں غوطہ لگا کے کئی بار اپنی ذات کو ڈھونڈا پر اپنا کہیں کوئی نشان نہ ملا۔ میں اس حد تک پیچھے گئی جہاں تک آگے بڑھتی زندگی اور میرے بیچ حائل ڈور نے مجھے مہلت دی۔ تھک ہار کے پھر سے وقت کے گھوڑے پہ سوار میں آگے بڑھنے لگی ۔ لیکن کبھی اپنی ذات سے ملاقات نہ ہوپائی۔
گھر کا پرانا سامان ٹٹولتے ہوئے ایک فوٹو البم جس کا مظبوط کوّر دیمک سے جنگ لڑتے لڑتے ہار گیا تھا، جس پہ سالوں کی دھول اٹی تھی ،میری نظر سے گزرا۔ ہر چیز کو ایک طرف کرتے میں گھٹنوں کے بل فرش پہ بیٹھی اور ایک ایک کر کے اس البم کے ورق کسی مقدس کتاب کی طرح پلٹنے لگی ۔ کسی بچپن کی سہیلی کے جیسے جو برسوں بعد ملی ہو، جسکو دیکھتے ہی بے اختیار مسکراہٹ کے ساتھ آنسوؤں ایک دھار گالوں سے ہوتی ہونٹوں کو تَر کردے اور سسکیوں کی ہلکی سی دھن میں اسکا سامنا ہو بالکل ویسے ہی میری ذات آکے مجھ سے لپٹی۔ میں نے خود کو ان پرانی تصویروں میں ڈھونڈ لیا، جن کے رنگ اڑ چکے تھے پر رونق اب بھی قائم تھی۔ ہر تصویر میں ایک کہانی تھی اورہر کہانی مِیں مَیں خود۔ وہ ہمسفر بھی ساتھ تھے جن کے پاؤں کے نشان اب تک مٹ چکے تھے جنھیں زندگی بھول کے آگے بڑھ گئی تھی۔ میری ذات کے مجھ سے کئی شکوے تھے اور میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ، بس لرزتے ہونٹ تھے جن کے پاس سے آنسؤں کے سمندرکی بے باک لہریں طوفان برپا کرتیں میری روح کو بھگو رہی تھیں۔
البم کے آخری ورق کو پلٹ کے میں نےاسے سینے سے لگالیا ۔ اور میرے دل نے مجھ سے پوچھا
“تمہاری ذات تو اب بھی ان یادوں میں قید ہے پھر کیوں تم وقت کی دھول میں سر پٹ دوڑ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
یادیں
عقلمندی اسی میں ہے کہ “حسین موڑ دے کے چھوڑ دیتے ہیں”
“وہ کاغذ جس پہ مل کے ‘ یقین ‘ لکھا تھا اسکی ایک کشتی بنا کے، پھولوں کی چند پتیاں اس میں سوار کرتے ہیں اور پھر بہا دیتے ہیں کسی ندی میں”
ہر بار میری یہی رائے ہوتی اور جواب آتا
“جب چھوڑنا ہی ہے تو حسین موڑ دے کے کیا چھوڑنا، ایک کاری ضرب لگاتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کس کی کرچیاں زیادہ بکھرتی ہیں”
وہ اس انتظار میں رہا کہ میں اسکی بات مان لوں اور میں اس بات پہ اڑی تھی کہ سوچ میری ٹھیک ہے۔ پھر جب وہ کاغذ کھول کے دیکھا تو وہ کورا ہی نکلا۔ ہم دونوں کی سوالیہ نظریں ایک دوسرے کی طرف اٹھیں ” کہاں گیا وہ یقین جو اس کاغذ پہ لکھا تھا؟” جواب میں آنسو کے نشان جو اس کاغذ پہ خشک ہو چکے تھے بولے کہ کس یقین کو ڈھونڈ رہے ہو؟ اس نے تو اپنے ہی آنسوؤں سے خود کو مٹادیا۔
جب سب ختم ہوا۔ جاتے جاتے ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایکدوسرے کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیں گے۔
“اس نے میرے ہاتھ میں ‘دھوکہ’ تھمایا اور میں بدلے میں ‘خاموشی’ اسکے حوالے کرکے چلی آئی”
مثبت سوچ
انسان نے آج تک صرف دس فیصد دماغ کا استعمال کیا ہے، اور نوے فیصد دماغ ابھی تک غیر استعمال شدہ ہے، ایسا سائنسدان کہتے ہیں اور اس طرح کی کئی رپورٹس گردش کرتی رہیتی ہیں۔ پر میرا خیال ہے وہ دس فیصد بھی چند لوگوں نے استعمال کیا ہوگا، باقی سب تو ان چند دماغوں کی بدولت زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ جو دنیا اتنی ترقی کر رہی اس میں میرا کردار کیا ہے؟؟ اسکا جواب بہت ہی آسان ہے، میرا کام ہے پیسے کمانا چاہے طریقہ جو بھی استعمال ہو۔ اورپھر کسی کے دماغ کی کوئی ایجاد خرید لی جائے ۔ جب مجھے بس پیسہ ہی کمانا ہے تو اللہ پاک نے اتنا سارا دماغ کیوں دیا مجھے؟؟ کبھی سوچا ہے؟ اگر مجھے دماغ اس لیے ملا کہ میں بس اپنا پیٹ بھر سکوں ، ضرورت کی چند چیزیں خرید سکوں اور کچھ آسائشیں ہوں زندگی میں تو بس مجھے اور کیا چاہیے۔ ہم میں سے لگ بھگ ہر انسان اسی سوچ پہ زندگی گزار رہا۔ پر اگر اتنے زیادہ دماغ کا استعمال اتنا ہی تھا تو اللہ پاک نے رزق عطا کرنے کا وعدہ کیوں کیا؟؟ کہہ دیا جاتا یہ دماغ دیا ہے اسی کا استعمال کرو اور پیٹ بھرو پھر تو میرے جیسے لکیر کے فقیر بھوک سے ہی مر جاتے۔ کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی طرز کی زندگی کئی سالوں تک جینا اور پھر مر جانا۔ بس اتنا ہی کھیل تھا تو یقین مانیے مزہ نہیں آیا۔
آج میں ایک آرٹیکل پڑھ رہی تھی جس میں لکھا تھا کہ دماغ کو کیسے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تو اس میں ایک بات قابل ذکر تھی، اور وہ یہ کہ اپنی سوچ جتنی مثبت رکھو گے دماغ کی کارکردگی اتنی اچھی ہوگی۔ تو دن رات اپنی محرومیوں کا رونا روتے رہنے سے اچھا یہ ہے کہ گھر کی کھیتی (دماغ) کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور اپنے لیے نئے راستے ڈھونڈتے ہیں، یکسانیت کی زندگی جینے سے اچھا ہے کچھ نیا کرنا۔
فطرت – ep 1
فرض کریں کسی دفتر کا ویٹنگ روم ہے جہاں آپ ایک صوفے پہ بیٹھے اپنے موبائل فون میں مگن ہوں، یا پھر ادھر ادھر کی چیزوں کا جائزہ لے رہے ہوں۔ اور دماغ میں چلتی باتیں چہرے کے تاثرات سے واضح ہورہی ہوں اور آپکو ایک دم سے احساس ہو کہ سامنے والی دیوار میں ایک کیمرہ نصب ہے، پھر کیا ہوگا؟؟
“ایک دم سے چونکنا، لباس درست کرنا اور بہت ہی باادب اور معتبر انداز میں سیدھے ہوکے بیٹھ جانا “
یہ ہوتا ہے کیمرے کے اس چھوٹے سے لنز کا کمال۔ دراصل کمال کیمرے کا نہیں اس فطرت کا ہے جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ جب انسان کو یہ محسوس ہو کہ اسے دیکھا جا رہا تو وہ بہت محتاط ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ، جب آپ سٹیج پہ کھڑے کافی لوگوں سے مخاطب ہوں تو بات چیت اور انداز میں ایک واضح تبدیلی ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انسان کوشش کرتا ہے کہ وہ دیکھنے والوں کے سامنےجتنا اچھا خود کو دکھا سکتا ہے اسے دیکھانا چاہیے۔
پر میں ایک اور چیز سوچ رہی تھی کہ کوئی ایسا انسان جو اس بات پہ بھی یقین رکھتا ہو کہ اس” ذات پاک “کی نظر ہر وقت اس پہ ہے پھر بھی وہ غلطیاں کرے تو اسکا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے ۔ یا تو اسکی فطرت بدل گئی ہے یا پھر اسے احساس ہی نہیں کہ اسکے دماغ میں پنپنے والے فتور سے لے کر اسکے ہر اچھے اور برے عمل کو ایسے دیکھا جارہا جیسا وہ خود بھی خود نہیں دیکھ سکتا۔
” جہاں ہم عام نظر کا سامنا کرنے کے لیے خود میں ایک اچھی تبدیلی لا سکتے ہیں تو اس نظر کا سامنا کرنے کے لیے خود کو کیوں نہیں بدل سکتے؟
کفن
میں نے دکاندار کو پیسے دئیے اور جلدی سے شاپنگ بیگ اٹھا کے سمین کے پیچھے بھاگی۔
“ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہیتی ہے یہ لڑکی، اسکے ساتھ شاپنگ پہ آنا خودکشی کے برابر ہے، جب تک پوری مارکیٹ نا پھر لے تب تک اسے چین نہیں آتا۔ مارکیٹ کی پہلی شاپ میں گھستی ہے اور آخری شاپ سے نکل کے گھر کا راستہ پکڑتی ہے۔ چل چل کے میرے تو پاؤں دکھ رہے تھے۔ اور وہ ایک کے بعد ایک شاپنگ بیگ مجھے پکڑا کے آگے نکل جاتی۔ میں تو خالہ کی وجہ سے آگئی ، ورنہ تو توبہ ہے جو میں کبھی آؤں ”
میں اندر ہی اندر غصے سے تلملاتی اسے کوستی جارہی تھی، اور وہ مجھے سے دس قدم آگے چل رہی تھی۔ میں نے اسے کپڑے کی ایک دکان میں گھستے دیکھا ، آہستہ آہستہ چلتی میں بھی اس دکان کے اندر آ گئی۔
“بھیا ! مجھے سفید رنگ میں کوئی سوٹ دکھائیں، جس پہ کڑھائی ہوسکے”
سمین دکاندار سے مخاطب تھی اور میں جا کے اسکے پاس بیٹھ گئی۔ دکاندار نے وہاں کام کرنے والے ایک لڑکے کو آواز دی، تھوڑی دیر میں وہ مختلف اقسام کے سفید کپڑے کے کچھ تھان ہمارے سامنے رکھنے لگا۔ وہ کپڑے کی کوالٹی چیک کرنے لگی اور مجھ سے مشورہ کیا کہ کونسا لینا چاہیے۔ تھان اوپر نیچے کرتے اسکی نظر ایک سفید کٹے ہوئے پیس پہ پڑی، اس نے جلدی سے وہ پیس ہاتھ میں لیا اور میری طرف اشارہ کرکے بولی
“یہ دیکھو ! کیسا ہے؟۔۔۔ شائد پوراسوٹ ہی کٹا ہوا ہے”
اس سے پہلے کے میں اسے اپنی رائے دے پاتی ، دکاندار نے جلدی سے وہ کپڑا اسکے ہاتھ سے لے لیا۔
“باجی ! آپ اسے رہنے دیں کوئی اور دیکھ لیں، یہ شائد غلطی سے آگیا ہے”
ہم دونوں دکاندار کے اس رؤیے سے حیران ہوئے۔ میں چپ رہی لیکن وہ بولی
” مجھے تو وہی کپڑا ہی لینا ہے، آپ دیکھائیے مجھے” وہ بضدتھی
“باجی ! وہ کفن کے لیے ہے، غلطی سے آگیا ۔ آپ اسے رہنے دیں”
دکاندار کے اس جواب کو سن کے ہم دونوں کے چہرے کے رنگ اڑ گئے۔ اگلے ہی لمحے وہ بیگ اٹھا کے دکان کے باہر تھی، میں نے آواز دی
” ارے ! رکو ۔۔۔ ! مجھے تو آنے دو”
دکاندار بھی آوازیں دینے لگا
“باجی ! بات تو سنیں ،۔۔۔۔۔۔۔باجی !”
میں نے اسے سے پہلے اسے اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا تھا، وہ بہت تیزی سے چل رہی تھی، میں لگ بھگ بھاگتی ہوئی اسے سے جا ملی۔ راستے میں میں اسے تسلی دیتی رہی کہ اتنی چھوٹی سے بات پہ تم پریشان ہوگئی ہو۔ اس نے میری کسی بات کا جواب نہ دیا۔ گھر جاتے ہی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں نے سارے شاپنگ بیگ خالہ کو پکڑائے اور اسکی اس حالت کا احوال سنا کے اپنے گھر چلی آئی۔
اگلی صبح امّی نے میرے اوپر سے کمبل ہٹا کے جلدی سے اٹھایا، میں گھبرا گئی، امّی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں ہڑبڑا سی گئی کہ آخر ہوا کیا ہے۔ کچھ بتائے بنا ہی وہ مجھے خالہ کے گھر لے گئیں، وہاں پہنچتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ سمین اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔ میں گھٹنوں کے بل اسکی لاش کے پاس بیٹھ گئی۔ دماغ کی نس پھٹنے سے اسکی موت واقع ہوئی۔ حیرانی اور پریشانی کے عالم میں میرے اندر سے ایک چیخ نکلی، اور اسے بعد میں اپنے حواس میں نہ رہی۔ جب ہوش آیا تو امّی آخری دیدار کے لیے مجھے اسکے پاس لے گئیں۔
کل جو سفید کفن دیکھ کے اس سے دور بھاگنے کی کوشش کررہی تھی آج وہی سفید کفن اس سے لپٹا تھا۔۔۔۔۔۔
“انسان اس دنیا میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا ، اسکے کفن کا کپڑا بکنے کے لیے بازار میں آگیاہے”حضرت علی رضی اللہ عنہ
بروقت
آخری دیدار کے لیے جب اس خاموش جسم کے پاس میں پہنچی اور چہرے سے سفید کپڑا ہٹایا تو روح اور جسم کے تعلق کی حقیقت میرے سامنے کھلی”
وہ بہت خوبصورت تھی۔ سب لوگ ہی اسکی خوبصورتی کی تعریف کرتے تھے۔ ہلکے سے بناؤ سنگھار سے چار چاند لگ جاتے تھے۔ بڑی بڑی روشن آنکھیں، دودھ جیسی رنگت اور گلابی ہونٹ۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی خوبصورتی اس حد تک شفاف ہوتی ہے۔ عمر قریب بیس سال تھی، یونیورسٹی سے واپس آتے گاڑی کے ساتھ ٹکر لگنے سے وہ جانبر نہ ہو پائی۔ گھر بس جسم لوٹا اور روح وہیں کہیں رہ گئی۔ پہلے پہل جب خبر مجھ تک پہنچی تو یقین نہیں آیا۔ میں دوڑتی ہوئی اسکے گھر پہنچی، ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ ایک پل کے لیے تو لگا شاید میں ہی مر گئی ہوں۔ حواس پہ قابو پاتے میں اسکی لاش کے پاس پہنچی، کفن ہٹا کے چہرہ دیکھا۔
” یہ تو وہ تھی ہی نہیں۔ نہ وہ روشن آنکھیں نہ جگمگاتا چہرہ نہ وہ گلابی ہونٹ۔ آنکھیں بے نور تھیں، چہرہ سیاہی مائل اور ہونٹ کالے پڑ گئے تھے۔ میرے دل اور دماغ میں ایک عجیب کشمکس تھی کہ زندگی تو ختم ہوئی سو ہوئی پر حسن تو جسم کی امانت تھا، وہ کہاں کھو گیا؟ ہاں شاید موت ہی اتنی بھیانک چیز کا نام ہےجس کے سامنے حسن بھی ٹک نہیں پایا ہوگا۔ سارا الزام موت پہ ڈالے میں واپس مڑی۔ ایک دم سے میرے اندر کہیں سے آواز آئی
” حسن کی وابستگی جسم سے نہیں روح سے ہے، خاک تو خاک ہوتی ہے، نہ خوش شکل نہ بد شکل۔ جب روح نکلی تو حسن کہاں ٹھہرتا؟”
مجھے اب سمجھ آیا، میں غلط جگہ وقت گنوا رہی تھی۔ جس جسم کے سنگھار میں میں نے اتنی تگ ودو کی اسکی حقیقت ہی کچھ اور تھی۔ ضرورت روح کو سنوارنے کی تھی اور میں مٹی کا تودہ سنوارنے میں لگی رہی۔
” شکر اس بات کا ہے کہ وقت رہیتے مجھے سمجھ آگیا
انجان
کروٹ بدل کے آنکھیں بند کیے ہی اس نے تکیے کے نیچے سے فون نکالاجو مسلسل وائیبریٹ کر رہا تھا۔ آنکھ کھولی اور فون کی سکرین پہ بلنک کرتا ہوا جانا پہچانا نمبر دیکھ کے اسے کوفت ہوئی۔
” اس وقت اسے کیا مصیبت پڑی ہے” کچھ بڑبڑاتے اس نے کال کاٹ دی اور میسج ٹائپ کیا
” اس وقت بات نہیں کر سکتا، وہ ساتھ سو رہی ہے”
میسج سینڈ کرکے کے وہ جواب کا انتظار کرنے لگا۔ فون کی سکرین لائیٹ جو آف ہوگئی تھی میسج ریپلائی آنے پہ آن ہوئی۔ اس نے جلدی سے میسج دیکھا اور ساتھ ہی اپنے بستر سے اٹھ بیٹھا۔ بنا کوئی آواز کیے بالکل آہستہ سے وہ بستر سے اٹھا اور اندھیرے میں ہی چپل ڈھونڈنے لگا۔ چپل ملی تو اس نے آگے بڑھ کے دھیرے سے دروازہ کھولا باہر کی لائیٹ آن تھی ، دروازہ کھلنے سے کمرے میں ہلکی سی روشنی ہوئی اس نے مڑ کے پیچھے دیکھا کہ کہیں وہ جاگ نہ گئی ہوئی، پر جب بستر پہ نظر پڑی تو بستر خالی تھا۔
“یہ کہاں چلی گئی؟” اسکے دماغ نے کئی سوالوں کو جنم دیا۔ واش روم کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ شش وپنج میں مبتلا وہ کیچن کی طرف گیا، وہاں کی لائٹ بھی آف تھی۔ اگلے دس منٹ میں اس نے پورا گھر چھان لیا لیکن اسکا کچھ پتا نہ چلا۔ آواز دے کے پکارنے سے اجتناب کیا کہ کہیں ساتھ والے کمرے میں سوئی ماں جی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ حیرانی ایک دم سے پریشانی اور غصے میں بدلی۔ اسکا فون دوبارہ وائیبریٹ کرنے لگا، بڑی بے دلی سے کال کاٹ کے وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ سوچوں میں گم ماں کی بات اسکے خیالوں میں گونجی
“بیٹا ! آجکل تیری بیوی کے لچھن مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے، گھنٹوں کمرے کا دروازہ بند کرکے پتا نہیں کس سے فون پہ لگی رہیتی ہے” ابھی کچھ دن پہلے ہی ماں جی نے اپنے شک کا اظہار کیا تھا، لیکن اس نے اس بات پہ دھیان نہ دیا۔ کہیں چھت پہ نہ ہو، دماغ میں سوالوں کا انبار لیے وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ ابھی اسکا پاؤں آخری سیڑھی پہ نہیں پڑا تھا ، ایک سرگوشی سن کے وہ وہیں رک گیا۔
“میں اسکی بیوی تو بن گئی لیکن اسے مجھ میں دلچسپی نام کی نہیں ہے، ہمارے بیچ زور زبردستی کا رشتہ چل رہا ہے ۔ جب پہلی بار میں نے انکے فون میں کسی لڑکی کے غیر اخلاقی میسج پڑھے تو بہت روئی ۔ دل کیا ان سے کہوں پر ڈر گئی کہ کہیں غصے میں آکے طلاق ہی نہ دے دیں ۔ جب میں سو جاتی تو وہ گھنٹوں کسی سے فون پہ باتیں کرتے رہیتے ۔ میں اپنے آپکو اندر سے کھاتی رہی۔ لیکن کتنی دیر برداشت کرتی۔ کوئی تو ہو جو میرے دل کی بات سنے۔ پر جب سے تم میری زندگی میں آئے ہو تو لگتا ہے کوئی اپنا ہے ، جو پرواہ کرتا ہے۔ میں جب بھی پریشان ہوتی ہوں تو تمہیں یاد کرتی ہوں ۔ تم سے بات کرکے دل کا بوجھ ہلکا ہوجو جاتا ہے، وہ اگر اپنے دل کی باتیں کسی اور سے کرتے ہیں تو میرے دل کی باتیں سننے کے لیے میرے پاس تم ہو”
سرگوشیاں ابھی جاری تھیں لیکن اس کی برداشت کم پڑ گئی۔ غیرت کے سمندر میں طوفان اٹھا اور اس نے قدم آگے بڑھایا کہ آج تو اسے اس دھوکے کی سزا مل کے رہے گی۔ اتنے میں اسکے فون نے پھر سے وائبریٹ کرنا شروع کیا۔ سارے جذبات ایک دم ڈھنڈے پڑ گئے۔ ایک پل کے لیے جیسے سب کچھ رک گیا ہو۔ جیسے کسی نے اسکی زبان جکڑ لی۔ پاؤں آگے نہ بڑھ پائے۔ وہ کسی شکست خوردہ انسان کی طرح واپس سیڑھیاں اترنے لگا ۔ سرگوشیاں اب بھی کانوں میں پڑتی رہیں جو کلیجہ چھلنی کررہی تھیں۔ اپنا فون پاور آف کرکے وہ بستر پہ لیٹ گیا۔ آج تو آرام دہ بستر پہ بھی کانٹے چبھ رہے تھے۔ جس گناہ کا مرتکب وہ خود تھا کیسے کسی اور کو اسی گناہ کی سزا دیتا۔ اگر کوئی سزاوار تھا تو وہ خود تھا۔
“کبھی کبھی ہم اس بات سے انجان ہوتے ہیں کہ ہماری کی ہوئی چھوٹی سی ایک غلطی کیسے بھیانک طوفان کا پیش خیمہ بنتی ہے”
اقدار
شہر کی بڑی یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہوا، میری خوشی کی انتہا نہ تھی، اپنے گاؤں سے میں پہلا لڑکا تھا جو شہر میں جا کے اپنی تعلیم مکمل کرتا۔ اپنے سبھی گاؤں کے دوستوں کو میں نے یہ خوش خبری سنائی۔ اگلے ہی دن میری ماں نے میرا سامان باندھا اور شہر جانے کے لیے مجھے تیار کیا۔ ان دنوں ہمارے گاؤں سے قریبی قصبے تک تانگے کی سواری چلتی تھی پھر وہاں سے شہر کی بس ملتی۔ مجھے شہر کی بس تک بٹھانے کے لیے میرے ابّا جی بھی تانگے پر سوار ہوئے۔ کچے رستے پہ چلتے چلتے تانگہ ہمارے کھیتوں کے پاس سے گزرا۔ ابّا جی ہاتھ کے اشارے سے مجھے بتانے لگے کہ ہمارے کھیت کون کون سے ہیں اور کونسی زمین کس فصل کے لیے موزوں ہے۔ یہ ساری باتیں تو میں پہلے سے ہی جانتا تھا۔ پھر کیوں وہ مجھے یہ سب بتا رہے تھے۔ اس سے پہلے کے میں ان سے پوچھ پاتا، انھوں نے تانگے والے کو تانگہ روکنے کا اشارہ دیا۔ وہ رک گیا۔ ابّاجی نے مجھے نیچے اترنے کا کہا۔ میں اپنا سارا سامان تانگے پہ چھوڑے، نیچے اترا۔ وہ مجھے ساتھ لیے کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی پہ چلنے لگے۔ تھوڑی دور چل کے وہ میری طرف مڑے۔ ذرا سا جھک کے تھوڑی سی مٹی اپنی مٹھی میں بھرکے میری طرف ہاتھ بڑھایا اورمٹھی کھول دی۔
“بیٹا۔۔۔ ! یہ مٹی تمہاری پہچان ہے، اسے کبھی مت بھولنا، کیوں کہ ایک بار اگر پہچان کھو دی تو پھر انسان خود کو بھی کھو دیتا ہے” وہ آبدیدہ تھے۔
وقت گزرتا رہا اور شہر جاکے میں نے اپنی ڈگری مکمل کرلی۔ شہر کی بارونق زندگی کا مجھے ایسا چسکا لگا کہ اپنے گاؤں کی زندگی پھیکی لگنے لگی۔ ابّا جی کی خواہش تھی کہ پڑھائی مکمل کرکے میں گاؤں واپس آجاؤں اور یہیں پہ کوئی کاروبار شروع کروں۔ لیکن میرے ارادے کچھ اور ہی تھے۔
کچھ عرصے بعد ابّاجی گزر گئے، میں نے انکی ساری سیکھائی باتیں پسِ پشت ڈالیں اور گاؤں کی ساری زمینیں اور جائیداد بیچ کے شہر رہنے آگیا۔ جب تک باپ کی جائیداد کا پیسہ تھا تب تک تو زندگی پرسکوں تھی پر جب پیسہ ختم ہوا تو زندگی نے اپنے اصل رنگ دکھانا شروع کیے۔ پھر میں نے دن رات محنت مشقت کی اور زندگی کی گاڑی کو جیسے کیسے راستے پہ لے آیا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ میرے باپ کی وہ بات مجھے شدت سے ستانے لگی کہ اگر اپنی پہچان بھولو گے تو خود بھی کہیں کھو جاؤ گے۔ اگر میں اپنے باپ کی بات مان لیتا تو شائد گاؤں میں بھی میں بہت اچھی زندگی گزار سکتا تھا ۔ اپنی تعلیم سے اپنے لوگوں کی زندگی سنوار سکتا تھا۔ وہ گاؤں اور وہ لوگ میرے تھے جنھیں میں چھوڑ کے آیا۔پر میں کسی کا نہیں تھا۔ شائد اپنا بھی نہیں۔
ایک عرصے بعد مجھے وقت پھر اسی مقام پہ لے کے آیا جہاں میں کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی میں کھڑا تھا اور اس بار میرے سامنے میرا باپ نہیں بیٹا تھا۔ جسے اس ملک سے مسئلہ تھا۔ جو پاکستان کو چھوڑ کے باہر کسی اور ملک میں جانا چاہتا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ یہاں پہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ اب میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ ہماری پہچان اس ملک سے ہے۔ ہم ہی اسے چھوڑ دیں گے تو کون آکے اسے سنوارے گا۔۔۔۔۔ !
ہم ہمیشہ یہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان ہمارا ہے۔ پر اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی پاکستان کے ہیں؟؟
میری طرف سے اہلِ وطن کو جشنِ آزادی مبارک ہو۔ اپنی رائے ضرور دیجیے گا
اک ڈور
بندھن ایک ایسی ڈور کا نام ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑ کے رکھتی ہے۔ اور زندگی میں یہی بندھن رشتوں کی صورت میں انسان کے ساتھ ساتھ چلتا رہیتا ہے۔ انسان چاہے نہ بھی رہے لیکن اسکے رشتوں کے نشاں ہمیشہ رہیتے ہیں کبھی یادوں کی صورت تو کبھی باتوں کی صورت۔ ہر بندھن کسی ایک بنیاد پہ ہی قائم رہیتا ہے۔ جیسے قدرت کے عطا کردہ رشتے خون سے پہچانے جاتے ہیں اور پیار محبت کے رشتے جذبات اور عہد و پیماں سے۔ ازدواجی رشتے قانون اور شریعت سے جڑے ہوتے ہیں۔
ایک رشتہ ایسا بھی انسان کی زندگی میں آتا ہے جو بظاہر کسی بندھن سے جڑا نہیں ہوتا لیکن بہت مظبوط ہوتا ہے۔ جیسے کلاس روم میں ساتھ والی کرسی پہ بیٹھا بچہ جسے آپ جانتے نہیں ہو لیکن کچھ ہی دنوں میں اپنے ساتھ والی کرسی اسکے لیے سنبھال کے رکھتے ہو۔ اپنا لنچ باکس شئیر کرتے ہو۔ سکول مٰیں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس سے ملنا ضروری بن جاتا ہے۔ کوئی بندھن نہیں بھی ہوتا تب بھی ہر ایک دل کی بات اسے بتا کر دل کو تسلی ملتی ہے۔ کیا ہے یہ رشتہ؟ یہ دوستی ہے ۔ ہر انسان کے لیے دوستی کا مطلب دوسرے انسان سے مختلف ہو سکتا ہے جیسے ، اچھے برے وقت میں جو ساتھ دے۔ جو آپ کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہو۔ جو اپنا نہ ہو کر بھی اپنا ہو۔ جس کی گالی سن کر بھی خوشی ہوتی ہو۔ دوستی کے ایسے ہزاروں مطلب ہوتے ہیں۔ لیکن میرا سوال آپ سے ہے۔۔۔۔
“یہ دوستی آپکے لیے کیا ہے
اے ٹی ایم مشین
ضرورت ایجاد کی ماں ہے” بہت مشہور کہاوت ہے۔ ہر ایجاد کے پیچھے ایک سوچ ہوتی ہے۔ اور ہر سوچ کے پیچھے ایک لگن کام کرتی ہے۔ جب لگن ہو تو قدرت راستے خود بخود پیدا کردیتی ہے۔ کوئی سوچ دماغ میں کب آئے گی ، کیسے آئے گی یہ تو کوئی نہیں جانتا پر ہاں وہ سوچ آتی ضرور ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اس سوچ کا صحیح استعمال کب اور کیسے کیا جائے۔
“جان شیپرڈ ” جنھوں نے اے ٹی ایم مشین ایجاد کی۔ اس ایجاد کی سوچ ان کے دماغ میں پہلی بار تب آئی جب وہ غسل خانے میں نہا رہے تھے۔ اور اس ایجاد نے دنیا ہی بدل دی۔ اگر” اے ٹی ایم کوڈ “کی بات کی جائے تو پہلے پہل انھوں نے چھ ہندسوں پر مشتمل کوڈ رکھنے کا فیصلہ کیاکیوں کہ وہ چھ ہندسے آسانی سے یاد رکھ سکتے تھے۔ پر جب اپنی بیوی سے اس انھوں نے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے “چار ہندسوں ” پر مشتمل کوڈ کی تجویز دی۔ کیوں کہ وہ چار ہندسے ہی آسانی سے یاد رکھ سکتی تھیں۔ اور تب 1973 میں پہلی بار اس مشین کا استعمال عمل میں آیا۔ اس سال امریکہ میں دو ہزار اے ٹی ایم مشینیں فروخت ہوئیں اور لگائی بھی گئیں۔
ایسی ہی چھوٹی سے سوچ جو کبھی بھی کہیں بھی آسکتی ہےوہ دنیا کو بدل کے رکھ دیتی ہے۔ سوچ کبھی چھوٹا ، بڑا یا خاص اور عام نہیں دیکھتی ، بس دیکھتی ہے ایک ذرخیز دماغ اور لگن۔
اگر آپکے دماغ میں بھی کبھی ایسی کوئی انوکھی سوچ آئے تو اسے نظرانداز مت کیجیے گا۔ ہوسکتا ہےیہ قدرت کی طرف سے کوئی اشارہ ہو
آنسو
ادھورے وعدوں اور ٹوٹے خوابوں کے اس ڈھیر پہ جب میرے آنسوؤں کے قطرے ٹپکے تو اسکے سرد روّیوں کی خنک ہوائیں ایسی چلیں ، دیکھتے ہی دیکھتے اسکے اور میرے بیچ برف کی ایک فصیل کھڑی ہوئی جس کے اس پار میں اور اس پار وہ ہے ۔ جہاں سے اسکی خوشبوئیں میری خوشبوؤں سے انجان ہینں۔ میں ہر روز ادھوری یادوں کی کرچیاں اپنے دامن میں سمیٹے اس دیوار کی بنیادیں بھرتی ہوں پر چاہتوں کی راکھ میں پھر سے ایک چنگاری سانس لیتی ہے، جسکی حدت سے برف پگھلتی ہےاور پھر سے ایک آنسو تیرتا ہوا ہونٹوں کو تر کرد یتا ہے۔
اور میں پھر سےہار جاتی ہوں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔!!
سچ کا سفر
بادشاہ کے محل میں صفائی کرتے جب ایک بھنگی کی نظر ملکہ پہ پڑی تو وہ پہلی نظر میں اس پہ فدا ہو گیا۔ لیکن اپنی حیثیت اور ملکہ کی حیثیت میں فرق دیکھا تو سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔ پر دل تھا جو ایک ملاقات کی حسرت میں تڑپتا رہا۔ عشق کی بیماری نے جسمانی بیماری کا روپ لیا اور وہ بستر پہ پڑ گیا۔ بھنگی کی بیوی بھی اس ساری حالت سے واقف تھی۔ بھنگی کی خراب حالت کی بنا پر اسکی بیوی اسکی جگہ کام پہ لگ گئی۔
کئی دن تک جب بھنگی ملکہ کو وہاں نظر نہ آیا تو اس نے اسکی بیوی سے دریافت کیا، بھنگی کی بیوی یہ سوچ کر گھبرا گئی کہ ملکہ کو اصل بات بتا دی تو نا جانے کیا حال ہو ہمارا۔ لیکن ملکہ نے اسکی گھبراہٹ جانچ کر اسے اعتماد میں لیا اور حقیقت پوچھی۔ بھنگی کی بیوی نے وہ ساری صورت حال ملکہ کے گوش گزار کر دی۔ تب ملکہ نے اسے کہا کہ اس سے ملاقات کا یہی ایک رستہ ہے، تم اپنے شوہر سے جا کے کہہ دو کل وہ شہر سے باہر کسی رستے پہ بیٹھ جائے اور بس اللہ اللہ کرتا رہے، نہ تو کسی سے بات کرے اور نہ ہی کسی کا دیا کوئی تحفہ قبول کرے۔ ایسا کرنے سے جب اسکے چرچے بادشاہ تک پہنچیں گے تو ملاقات کے رستے بھی کھل جائیں گے۔
ملکہ کا پیغام سنتے ہی بھنگی کی جان میں جان آئی اور وہ گداؤں کا بھیس بدل کے ایک رستے پہ جا کے بیٹھ گیا اور اللہ اللہ کا ورد شروع کردیا۔ آنے جانے والے اس متاثر ہوتے اور نظرانے ساتھ لاتے لیکن وہ نہ سر اٹھا کے کسی کو دیکھتا نہ ہی کسی چیز کو ہاتھ لگاتا۔ کرتے کرتے خبر بادشاہ تک پہنچی اور اس نے وزیر کو بھیجا کہ دریافت کرو کہ کون ہے وہ اور اسکی سچائی کس حد تک ہے۔ وزیر نے واپس جا کر بادشاہ سے اسکی بہت تعریف کی، بادشاہ فیض پانے کی غرض سے خود چل کر اسکے پاس گیا۔
جب ہر طرف اسکے چرچے ہونے لگے تو ملکہ نے بادشاہ سے اس نیک انسان کی زیارت کی خواہش ظاہر کی۔ بادشاہ نے اجازت دی۔ اسی اثناؑ میں جب بھنگی کو اس بات کا احساس ہو کہ اب تک وہ دل سے نہیں صرف ایک دنیاوی مقصد کے تحت ہی اللہ پاک کے نام کی تسبیح کر رہا تھا۔ وہ جھوٹآ ہے لیکن پھر بھی اللہ کی رحمت اس پر اس قدر ہے کہ لوگ اسکے سامنے جھک رہے ہیں کیا بادشاہ اور کیا عام آدمی سب ہی اسے عزت دے رہے ہیں۔ یہ کرامات تو صرف زبان سے وہ پاک نام لینے کی ہیں اگر سچے دل سے اس نام کی تسبیح کی جائے تو اور کتنی رحمتوں کا نزول اس پہ ہوگا۔ جب ملکہ اسکے پاس پہنچی تو اس نے سر اٹھا کے اسکی طرف نہ دیکھا اور وہ روتی ہوئی واپس اپنے محل چلی گئی۔
بے شک اس پاک ذات کا ذکر اپنے آپ میں ایک رحمت ہے
خواہش
سانس اور خواہش کا ایک گہرا رشتہ ہے۔ پہلی سانس کے ساتھ ہی جب دوسری سانس کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو یہ آخری سانس تک ساتھ رہیتی ہے۔ زندگی کے سفر میں انسان خواہشوں کا انبار ساتھ لے کے موت کی طرف بڑھتا ہے۔ گھر سے نکل کے ایک بھیڑ میں جہاں پہ آپکو بہت سارے لوگ دیکھائی دیتے ہیں دراصل وہ لوگ نہیں وہ خواہشیں ہوتی ہیں۔ خواہش ہی انسان کو آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ خواہش نہ ہو تو انسان کسی پتھر کی مجسمے کی مانند ہو جائے۔
خواہشیں کئی طرح کی ہوتی ہیں، کچھ ایسی ہوتی ہیں جن پہ انسان قابو پا لیتا ہے اور کچھ بہت ہی طاقتور ہوتی ہیں۔ خواہش جتنی طاقتور ہوگی اتنی ہی سفاک اور بے رحم بھی۔ ایک بار اسکے چنگل میں پھنس گئے تو پھر یہ اپنا حکم چلاتی ہے۔ پھر چاہے یہ انسان کو بھرے بازار میں برہنہ کر دے یا پھر تگنی کا ناچ نچائے۔ بس حکم کی تعمیل ہونا ضروری ہے۔ انسان ایک ایسے گھوڑے کی مانند بن جاتا ہے جس پہ یہ سوای کرکے اسے دوڑاتی رہیتی ہے۔ اور اس دوڑ میں رکنا اصول کے خلاف ہے۔ پھر یہ انسان کو ایک ایسی دلدل کے کنارے لے جاتی ہے جس کے آگے سارے رستے ختم ہوجاتے ہیں۔ تب یہ اس دلدل میں انسان کو دھکا دیتی ہے اور “ایک سانس اور” کی خواہش لیے انسان اس میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔
خواہش کی سواری بننے سے بہتر ہے اس پہ قابو پا لینا۔ تحریر: زویا حسن
میری تحاریر سے متعقلق قیمتی رائے دیے گئے ای میل اور فیس بک پیج پہ میسج کے ذریعے ضرور دیجئے تاکہ میں اپنی تحاریر میں مزید بہتری لا سکوں۔