اقدار

شہر کی بڑی یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہوا، میری خوشی کی انتہا نہ تھی، اپنے گاؤں سے میں پہلا لڑکا تھا جو شہر میں جا کے اپنی تعلیم مکمل کرتا۔ اپنے سبھی گاؤں کے دوستوں کو میں نے یہ خوش خبری سنائی۔ اگلے ہی دن میری ماں نے میرا سامان باندھا اور شہر جانے کے لیے مجھے تیار کیا۔ ان دنوں ہمارے گاؤں سے قریبی قصبے تک تانگے کی سواری چلتی تھی پھر وہاں سے شہر کی بس ملتی۔ مجھے شہر کی بس تک بٹھانے کے لیے میرے ابّا جی بھی تانگے پر سوار ہوئے۔ کچے رستے پہ چلتے چلتے تانگہ ہمارے کھیتوں کے پاس سے گزرا۔ ابّا جی ہاتھ کے اشارے سے مجھے بتانے لگے کہ ہمارے کھیت کون کون سے ہیں اور کونسی زمین کس فصل کے لیے موزوں ہے۔ یہ ساری باتیں تو میں پہلے سے ہی جانتا تھا۔ پھر کیوں وہ مجھے یہ سب بتا رہے تھے۔ اس سے پہلے کے میں ان سے پوچھ پاتا، انھوں نے تانگے والے کو تانگہ روکنے کا اشارہ دیا۔ وہ رک گیا۔ ابّاجی نے مجھے نیچے اترنے کا کہا۔ میں اپنا سارا سامان تانگے پہ چھوڑے، نیچے اترا۔ وہ مجھے ساتھ لیے کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی پہ چلنے لگے۔ تھوڑی دور چل کے وہ میری طرف مڑے۔ ذرا سا جھک کے تھوڑی سی مٹی اپنی مٹھی میں بھرکے میری طرف ہاتھ بڑھایا اورمٹھی کھول دی۔ 
“بیٹا۔۔۔ ! یہ مٹی تمہاری پہچان ہے، اسے کبھی مت بھولنا، کیوں کہ ایک بار اگر پہچان کھو دی تو  پھر انسان خود کو بھی کھو دیتا ہے” وہ آبدیدہ تھے۔ 
 وقت گزرتا رہا اور شہر جاکے میں نے اپنی ڈگری مکمل کرلی۔ شہر کی بارونق زندگی کا مجھے ایسا چسکا لگا کہ اپنے گاؤں کی زندگی پھیکی لگنے لگی۔ ابّا جی کی خواہش تھی کہ پڑھائی مکمل کرکے میں گاؤں واپس آجاؤں اور یہیں پہ کوئی کاروبار شروع کروں۔ لیکن میرے ارادے کچھ اور ہی تھے۔ 
 کچھ عرصے بعد ابّاجی گزر گئے، میں نے انکی ساری سیکھائی باتیں پسِ پشت ڈالیں اور گاؤں کی ساری زمینیں اور جائیداد بیچ کے شہر رہنے آگیا۔ جب تک باپ کی جائیداد کا پیسہ تھا تب تک تو زندگی پرسکوں تھی پر جب پیسہ ختم ہوا تو زندگی نے اپنے اصل رنگ دکھانا شروع کیے۔ پھر میں نے دن رات محنت مشقت کی اور زندگی کی گاڑی کو جیسے کیسے راستے پہ لے آیا۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ میرے باپ کی وہ بات مجھے شدت سے ستانے لگی کہ اگر اپنی پہچان بھولو گے تو خود بھی کہیں کھو جاؤ گے۔ اگر میں اپنے باپ کی بات مان لیتا تو شائد گاؤں میں بھی میں بہت اچھی زندگی گزار سکتا تھا ۔ اپنی تعلیم سے اپنے لوگوں کی زندگی سنوار سکتا تھا۔ وہ گاؤں اور وہ لوگ میرے تھے جنھیں میں چھوڑ کے آیا۔پر میں کسی کا نہیں تھا۔ شائد اپنا بھی نہیں۔
ایک عرصے بعد مجھے وقت  پھر اسی مقام پہ لے کے آیا جہاں میں کھیتوں کے بیچ پگڈنڈی میں کھڑا تھا اور اس بار میرے سامنے میرا باپ نہیں بیٹا تھا۔ جسے اس ملک سے مسئلہ تھا۔ جو پاکستان کو چھوڑ کے باہر کسی اور ملک میں جانا چاہتا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ یہاں پہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔ اب میں اسے کیسے سمجھاؤں کہ ہماری پہچان اس ملک سے ہے۔ ہم ہی اسے چھوڑ دیں گے تو کون آکے اسے سنوارے گا۔۔۔۔۔ !
ہم ہمیشہ یہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان ہمارا ہے۔ پر اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی پاکستان کے ہیں؟؟
 میری طرف سے اہلِ وطن کو جشنِ آزادی مبارک ہو۔ اپنی رائے ضرور دیجیے گا

About adminzoya

HI THIS IS ZOYA HASSAM

Leave a Comment

error: Content is protected !!