حیض ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں بات کرنے سے لوگ آج بھی کتراتے ہیں۔ حالانکہ لڑکی جب سنِ بلوغت میں پہنچتی ہے تو اسے اس سے متعلق تعلیم کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ عمر کے اس حصے میں جسمانی اور دماغی تبدیلیاں اتنی تیزی سے رونما ہورہی ہوتی ہیں جن کے بارے میں علم ہونا انتہائی ضرروی ہے۔
اور ہمارے معاشرے میں ماں اپنی بیٹی کو سب سے پہلی تعلم ہی یہی دیتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے چھپانا بے حد ضرورری ہے۔ جہاں ضرورت ہوتی کہ بلوغت کے دوارن ہونے والی تبدیلیاں کیوں ہوتی ہیں اور کچھ مسائل جنم لیں تو ان کا حل کیا ہے۔ لڑکی کو ایک باقاعدہ مینٹل گروتھ اور رہنمائی چاہیے ہوتی ہے۔ لیکن سب کچھ اس کے الٹ ہی ہورہا ہوتا ہے۔ لڑکی کو احساس دلایا جاتا ہے یہ اتنی بری چیز ہے جس کا پتا چلنا شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔
یہی وہ سوچ ہے جو لڑکی کے دماغ میں ایسی بیٹھ جاتی ہے کہ وہ عمر کے جس حصے میں کیوں نہ پہنچ جائے لیکن حیض اور اس جیسے زنانہ مسائل کے بارے میں کھل کے بات کرنے سے کترارتی ہے۔
حالانکہ آج کے ماڈرن دور میں لوگوں کی سوچ ان چیزوں کے بارے میں تبدیل ضرور ہوئی ہے لیکن ابھی بھی مڈل کلاس اور نیچے کے طبقات میں ماؤں کی سوچ میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔
اب بھی جوان لڑکیوں کو اپنے لیے سینیٹری پیڈز لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مردوں کے لیے ریزر ز تو کیش کاؤنٹر پہ لٹکے ہوئے ملیں گے لیکن لڑکیوں کے لیے ہیر ریوموول پراڈکٹس کا سیکشن ایک کونے میں بنا ہوگا ۔ اس سب کی وجہ صرف اور صرف تعلیم کی کمی ہے۔
میرے خیال میں لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ماؤں کو بھی ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جہاں انھیں سکھایا جا سکے کہ زنانہ مسائل کو گناہ کا درجہ دینے سے بہتر ہے اسکے بارے میں پوری معلومات ہوں۔ جو آپ کی بیٹی کے صحت اور زندگی کے لیے انتہا ئی ضروری ہے۔
آپ کیا سوچتے ہیں اس بارے میں، اپنی رائے ضرور دیجیئے۔
تحریر: زویا حسن