ایک سیشن کے دوران ماہر نفسیات نے ہاتھ میں پانی کا گلاس اٹھایا اور سامنے بیٹھے لوگوں سے مخاطب ہوا۔ عمومی طور پر اس طرح کی صورت حال میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے بتائیں گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا ہے۔ لیکن غیر متوقع طور پر ماہر نفسیات کا سوال تھا
“بتائیں اس گلاس کا وزن کتنا ہوگا؟”
سب نے اندازے کی بنیاد پر اس گلاس کا وزن بتایا۔ کسی نے کہا دو سو گرام تو کسی نے کہا ڈھائی سو گرام۔ لیکن ماہر نفسیا ت نے ایک انتہائی اہم نکتہ اٹھایا۔
“اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اس گلاس کا حقیقی وزن کتنا ہے۔ فرق اس سے پڑتا ہے کہ اسے میں کتنی دیر تک ہاتھ میں اٹھائے رکھ سکتا ہوں۔ اگر میں اسے بس ایک منٹ ہی اٹھائے رکھوں تو اس سے مجھ کچھ محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن اگر میں اسے ایک گھنٹہ اس حالت میں اٹھائے رکھوں تو میرا بازو درد کرنے لگے گا۔ ا سی طرح پورا دن اٹھا ئے رکھنے سے مجھے شدید تکلیف ہوگی اور عین ممکن ہے میرا بازو مفلوج ہوجائے۔
ماہر نفسیات کی بات بہت گہری تھی۔ کئی بار ہم انتہائی چھوٹی چیزوں کو اپنے دماغ پہ اتنا سوار کرلیتے ہیں اور کئی کئی دنوں تک بلاجواز انھی کے بارے میں سوچتے رہیتے ہیں۔ خواہ وہ کسی شخص کے بارے میں منفی سوچ ہو یا پھر انتہائی غیر اہم مسئلہ جس کے بارے میں تھوڑی دیر سوچنے سے تو شائد کوئی فرق نہ پڑے۔۔ لیکن پہروں بیٹھ کے اسی بارے میں سوچنا دماغ کو مفلوج کردیتا ہے۔ اسی لیے اپنی سوچ میں توازن لا نا انتہائی ضروری ہے۔
آپ کیا سوچتے ہیں اس بارے میں۔۔۔؟
تحریر: زویا حسن