فطرت – ep 1

فرض کریں کسی دفتر کا ویٹنگ روم ہے جہاں آپ ایک صوفے پہ بیٹھے اپنے موبائل فون میں مگن ہوں، یا پھر ادھر ادھر کی چیزوں کا جائزہ لے رہے ہوں۔ اور دماغ میں چلتی باتیں چہرے کے تاثرات سے واضح ہورہی ہوں اور آپکو ایک دم سے احساس ہو کہ سامنے والی دیوار میں ایک کیمرہ نصب ہے، پھر کیا ہوگا؟؟
“ایک دم سے چونکنا، لباس درست کرنا اور بہت ہی باادب اور معتبر انداز میں سیدھے ہوکے بیٹھ جانا “
یہ ہوتا ہے کیمرے کے اس چھوٹے سے لنز کا کمال۔ دراصل کمال  کیمرے کا نہیں اس فطرت کا ہے جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ جب انسان کو یہ محسوس ہو کہ اسے دیکھا جا رہا تو وہ بہت محتاط ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے ، جب آپ سٹیج پہ کھڑے کافی لوگوں سے مخاطب ہوں تو بات چیت اور انداز میں ایک واضح تبدیلی ہوتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انسان کوشش کرتا ہے کہ وہ دیکھنے والوں کے سامنےجتنا اچھا خود کو دکھا سکتا ہے اسے دیکھانا چاہیے۔
پر میں ایک اور چیز سوچ رہی تھی کہ کوئی ایسا انسان جو اس بات پہ بھی یقین رکھتا ہو کہ اس”  ذات پاک “کی نظر ہر وقت اس پہ ہے پھر بھی وہ غلطیاں کرے تو اسکا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے ۔ یا تو اسکی فطرت بدل گئی ہے یا پھر اسے احساس ہی نہیں کہ اسکے دماغ میں پنپنے والے فتور سے لے کر اسکے ہر اچھے اور برے عمل کو ایسے دیکھا جارہا جیسا وہ خود بھی خود نہیں دیکھ سکتا۔ 
” جہاں ہم عام نظر کا سامنا کرنے کے لیے  خود میں ایک اچھی تبدیلی لا سکتے ہیں تو اس نظر کا سامنا کرنے کے لیے خود کو کیوں نہیں بدل سکتے؟

About Zoya Hassan

HI THIS IS ZOYA HASSAM

Leave a Comment

error: Content is protected !!