مسجد جاتے ہوئے ایک گلی سے جب مولوی صاحب گزرے تو ایک شرارتی بچے نے انھیں کنکر مارا، وہ غصے سے تلملاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کیونکہ نماز سے دیر ہورہی تھی۔ لیکن یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا رہا پر ہر بار مولوی صاحب اس بچے کو روکنے میں ناکام نظر آئے، کبھی وہ شرارتی بچہ بھاگ جاتا تھا تو کبھی مولوی صاحب جلدی میں نکل جاتے تھے۔ پھر ایک دن جمعہ نماز کے لیے جاتے ہوئے انھیں وہ بچہ دکھائی دیا جو بے دھیان اپنے کھیل میں مشغول تھا، مولوی صاحب نے موقع غنیمت جانا اور اگلے پچھلے حساب برابر کرنے اس پہ ٹوٹ پڑے۔ کافی دیر مارنے کے بعد جب انکا غصہ ٹھنڈا ہوا تو یہ کہہ کر بچے کی جان چھوڑی کے وہ دوبارہ یہاں نظر نہ آئے۔
مولوی صاحب مسجد پہنچے ، واعظ کے لیے کھڑے ہوئے تو کہیں سے آواز آئی ” آج ‘ حسن اخلاق ‘ پہ روشنی ڈالیں۔ اس سے پہلے کے وہ مضمون شروع کرتے ان کے دماغ میں تھوڑی دیر پہلے کا واقعہ گردش کرنا شروع ہوا۔۔۔۔ پھر کیا تھا ، مولوی صاحب کے سارے لفظ خاموش ہو گئے۔ ایسا ہی کچھ کل رات میرے ساتھ بھی ہوا ، مجھے بھی کسی نادان بچے نے کنکر مارا۔۔۔ اور میں نے بھی مولوی صاحب جیسا کچھ کیا۔۔۔
غلط اور صحیح کے درمیان میں ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرتے کرتے ہم وہ لکیر پار کر جاتے ہیں۔ پھر کب صحیح غلط میں بدل جاتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ کل رات میں نے بھی جب مولوی صاحب کی طرح وہ لکیر پار کی تو میرا سب صحیح غلط ہوگیااور اس کا سب غلط صحیح ثابت ہوا۔ اسکو میری قابلیت پہ شک تھا اور میری قوت برداشت کمزور نکلی۔ جب مجھے حسن اخلاق پہ کچھ لکھنا تھا تو میر ے لفظ بھی مولوی صاحب کی طرح خاموش ہوچکے تھے۔ حیرت مجھے اس بات پہ تھی کہ بچپن سے اب تک میں نے کئی بار اس موضوع پہ مضمون لکھے تھے۔ احادیث اور قول سب یاد تھے پر سامنے پڑا کاغذ کا ٹکڑا خالی پڑا رہا۔۔۔۔۔۔۔
بہت دیر لگی مجھے سمجھنے میں پر مجھے سمجھ آگیا تھا کہ میں کہاں پہ غلط تھی ۔ شائد میری ذات میرا امتحان لے رہی تھی اور میں مولوی صاحب کی طرح ناکام ہوگئی۔ میں کسی اور انسان کی تصیح کررہی تھی پر مجھے صحیح خود کو کرنا تھا۔ جب سمجھ آئی ، تب میرا سفید کاغذ رنگ بدلنے لگا اور اس پہ لفظ بکھرتے گئے۔ ۔۔
میں بہت خوش ہوں کہ ” ایک وائرس نے میرا سسٹم اپڈیٹ کردیا۔۔۔
حسن اخلاق
About adminzoya
HI THIS IS ZOYA HASSAM