سانس اور خواہش کا ایک گہرا رشتہ ہے۔ پہلی سانس کے ساتھ ہی جب دوسری سانس کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو یہ آخری سانس تک ساتھ رہیتی ہے۔ زندگی کے سفر میں انسان خواہشوں کا انبار ساتھ لے کے موت کی طرف بڑھتا ہے۔ گھر سے نکل کے ایک بھیڑ میں جہاں پہ آپکو بہت سارے لوگ دیکھائی دیتے ہیں دراصل وہ لوگ نہیں وہ خواہشیں ہوتی ہیں۔ خواہش ہی انسان کو آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ خواہش نہ ہو تو انسان کسی پتھر کی مجسمے کی مانند ہو جائے۔
خواہشیں کئی طرح کی ہوتی ہیں، کچھ ایسی ہوتی ہیں جن پہ انسان قابو پا لیتا ہے اور کچھ بہت ہی طاقتور ہوتی ہیں۔ خواہش جتنی طاقتور ہوگی اتنی ہی سفاک اور بے رحم بھی۔ ایک بار اسکے چنگل میں پھنس گئے تو پھر یہ اپنا حکم چلاتی ہے۔ پھر چاہے یہ انسان کو بھرے بازار میں برہنہ کر دے یا پھر تگنی کا ناچ نچائے۔ بس حکم کی تعمیل ہونا ضروری ہے۔ انسان ایک ایسے گھوڑے کی مانند بن جاتا ہے جس پہ یہ سوای کرکے اسے دوڑاتی رہیتی ہے۔ اور اس دوڑ میں رکنا اصول کے خلاف ہے۔ پھر یہ انسان کو ایک ایسی دلدل کے کنارے لے جاتی ہے جس کے آگے سارے رستے ختم ہوجاتے ہیں۔ تب یہ اس دلدل میں انسان کو دھکا دیتی ہے اور “ایک سانس اور” کی خواہش لیے انسان اس میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔
خواہش کی سواری بننے سے بہتر ہے اس پہ قابو پا لینا۔ تحریر: زویا حسن
خواہش
About adminzoya
HI THIS IS ZOYA HASSAM