انسان نے آج تک صرف دس فیصد دماغ کا استعمال کیا ہے، اور نوے فیصد دماغ ابھی تک غیر استعمال شدہ ہے، ایسا سائنسدان کہتے ہیں اور اس طرح کی کئی رپورٹس گردش کرتی رہیتی ہیں۔ پر میرا خیال ہے وہ دس فیصد بھی چند لوگوں نے استعمال کیا ہوگا، باقی سب تو ان چند دماغوں کی بدولت زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ جو دنیا اتنی ترقی کر رہی اس میں میرا کردار کیا ہے؟؟ اسکا جواب بہت ہی آسان ہے، میرا کام ہے پیسے کمانا چاہے طریقہ جو بھی استعمال ہو۔ اورپھر کسی کے دماغ کی کوئی ایجاد خرید لی جائے ۔ جب مجھے بس پیسہ ہی کمانا ہے تو اللہ پاک نے اتنا سارا دماغ کیوں دیا مجھے؟؟ کبھی سوچا ہے؟ اگر مجھے دماغ اس لیے ملا کہ میں بس اپنا پیٹ بھر سکوں ، ضرورت کی چند چیزیں خرید سکوں اور کچھ آسائشیں ہوں زندگی میں تو بس مجھے اور کیا چاہیے۔ ہم میں سے لگ بھگ ہر انسان اسی سوچ پہ زندگی گزار رہا۔ پر اگر اتنے زیادہ دماغ کا استعمال اتنا ہی تھا تو اللہ پاک نے رزق عطا کرنے کا وعدہ کیوں کیا؟؟ کہہ دیا جاتا یہ دماغ دیا ہے اسی کا استعمال کرو اور پیٹ بھرو پھر تو میرے جیسے لکیر کے فقیر بھوک سے ہی مر جاتے۔ کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی طرز کی زندگی کئی سالوں تک جینا اور پھر مر جانا۔ بس اتنا ہی کھیل تھا تو یقین مانیے مزہ نہیں آیا۔
آج میں ایک آرٹیکل پڑھ رہی تھی جس میں لکھا تھا کہ دماغ کو کیسے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تو اس میں ایک بات قابل ذکر تھی، اور وہ یہ کہ اپنی سوچ جتنی مثبت رکھو گے دماغ کی کارکردگی اتنی اچھی ہوگی۔ تو دن رات اپنی محرومیوں کا رونا روتے رہنے سے اچھا یہ ہے کہ گھر کی کھیتی (دماغ) کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور اپنے لیے نئے راستے ڈھونڈتے ہیں، یکسانیت کی زندگی جینے سے اچھا ہے کچھ نیا کرنا۔
مثبت سوچ
About Zoya Hassan
HI THIS IS ZOYA HASSAM