عقلمندی اسی میں ہے کہ “حسین موڑ دے کے چھوڑ دیتے ہیں”
“وہ کاغذ جس پہ مل کے ‘ یقین ‘ لکھا تھا اسکی ایک کشتی بنا کے، پھولوں کی چند پتیاں اس میں سوار کرتے ہیں اور پھر بہا دیتے ہیں کسی ندی میں”
ہر بار میری یہی رائے ہوتی اور جواب آتا
“جب چھوڑنا ہی ہے تو حسین موڑ دے کے کیا چھوڑنا، ایک کاری ضرب لگاتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کس کی کرچیاں زیادہ بکھرتی ہیں”
وہ اس انتظار میں رہا کہ میں اسکی بات مان لوں اور میں اس بات پہ اڑی تھی کہ سوچ میری ٹھیک ہے۔ پھر جب وہ کاغذ کھول کے دیکھا تو وہ کورا ہی نکلا۔ ہم دونوں کی سوالیہ نظریں ایک دوسرے کی طرف اٹھیں ” کہاں گیا وہ یقین جو اس کاغذ پہ لکھا تھا؟” جواب میں آنسو کے نشان جو اس کاغذ پہ خشک ہو چکے تھے بولے کہ کس یقین کو ڈھونڈ رہے ہو؟ اس نے تو اپنے ہی آنسوؤں سے خود کو مٹادیا۔
جب سب ختم ہوا۔ جاتے جاتے ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایکدوسرے کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیں گے۔
“اس نے میرے ہاتھ میں ‘دھوکہ’ تھمایا اور میں بدلے میں ‘خاموشی’ اسکے حوالے کرکے چلی آئی”
یادیں
About adminzoya
HI THIS IS ZOYA HASSAM