جب میں آگے نکل آئی اور میرے ذات مجھے سے دور کہیں پیچھے رہ گئی تو میں نے زندگی کی لگام ایک پل کے لیے کَسّی اور گزرے وقت کے سمندر میں غوطہ لگا کے کئی بار اپنی ذات کو ڈھونڈا پر اپنا کہیں کوئی نشان نہ ملا۔ میں اس حد تک پیچھے گئی جہاں تک آگے بڑھتی زندگی اور میرے بیچ حائل ڈور نے مجھے مہلت دی۔ تھک ہار کے پھر سے وقت کے گھوڑے پہ سوار میں آگے بڑھنے لگی ۔ لیکن کبھی اپنی ذات سے ملاقات نہ ہوپائی۔
گھر کا پرانا سامان ٹٹولتے ہوئے ایک فوٹو البم جس کا مظبوط کوّر دیمک سے جنگ لڑتے لڑتے ہار گیا تھا، جس پہ سالوں کی دھول اٹی تھی ،میری نظر سے گزرا۔ ہر چیز کو ایک طرف کرتے میں گھٹنوں کے بل فرش پہ بیٹھی اور ایک ایک کر کے اس البم کے ورق کسی مقدس کتاب کی طرح پلٹنے لگی ۔ کسی بچپن کی سہیلی کے جیسے جو برسوں بعد ملی ہو، جسکو دیکھتے ہی بے اختیار مسکراہٹ کے ساتھ آنسوؤں ایک دھار گالوں سے ہوتی ہونٹوں کو تَر کردے اور سسکیوں کی ہلکی سی دھن میں اسکا سامنا ہو بالکل ویسے ہی میری ذات آکے مجھ سے لپٹی۔ میں نے خود کو ان پرانی تصویروں میں ڈھونڈ لیا، جن کے رنگ اڑ چکے تھے پر رونق اب بھی قائم تھی۔ ہر تصویر میں ایک کہانی تھی اورہر کہانی مِیں مَیں خود۔ وہ ہمسفر بھی ساتھ تھے جن کے پاؤں کے نشان اب تک مٹ چکے تھے جنھیں زندگی بھول کے آگے بڑھ گئی تھی۔ میری ذات کے مجھ سے کئی شکوے تھے اور میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ، بس لرزتے ہونٹ تھے جن کے پاس سے آنسؤں کے سمندرکی بے باک لہریں طوفان برپا کرتیں میری روح کو بھگو رہی تھیں۔
البم کے آخری ورق کو پلٹ کے میں نےاسے سینے سے لگالیا ۔ اور میرے دل نے مجھ سے پوچھا
“تمہاری ذات تو اب بھی ان یادوں میں قید ہے پھر کیوں تم وقت کی دھول میں سر پٹ دوڑ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
یقین
About adminzoya
HI THIS IS ZOYA HASSAM