کر ۔۔۔ برا۔۔۔ ہو۔۔۔ برا

آج جب خالہ سے میں نے انکی چھوٹی  بیٹی کے بارے میں پوچھا  کہ شادی کے بعد کیسی زندگی گزر رہی تو جواباً انھوں نے  رونا شروع کر دیا

“کیا  بتاؤں۔۔ میری بچی تو انگاروں پہ زندگی گزار رہی ہے۔۔ “

“خالہ جب آپکو پتا تھا۔۔ وہ خاتون ایسی ہیں تو  ایسے گھر میں شادی کیوں کردی۔۔ “

میں نے حیران ہو کے پوچھا

“کیا کرتی بیٹا۔۔ کہاں ملتے ہیں اچھے رشتے۔۔۔    لڑکا اچھا لگا تھا۔۔ سوچا  زندگی اچھی گزر جائے گی۔۔ لیکن سسرالیوں نے اسے ایک دن بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔۔۔  میں تو بس اپنی بچی کو یہی تسلی دیتی ہوں کہ۔۔ صبر کرو۔۔  تمہاری ساس کی بھی ایک بیٹی ہے۔۔  جو ظلم وہ تم پہ کررہی ہے۔۔ اسکی بیٹی “کے ساتھ اس  سے بھی برا ہوگا

مجھے یہ جان کے حیرت  ہوتی ہے  کہ    شادی کے بعد جن لڑکیوں  کو  سسرال اور خاص طور پر ساس سے    وہ مقام اور عزت نہیں ملتی جس کی وہ حقدار ہوتیں ہیں  اور وہ اپنے حق کے لیے لڑ نہیں سکتیں تو ان کی مائیں   ایسی ہی تسلیاں کیوں دیتی ہیں۔۔ ؟

آپ ہی بتائیے۔۔۔  یہ کیسے مکافات عمل کی امید ہے جس کا   اثر اس انسان پہ پڑے جو شائد اس گناہ  کا حصہ دار بھی نہ ہو۔ جیسے   ساس کی بیٹی۔۔۔ فرض کریں  ساس کی بیٹی کے ساتھ وہ سب  ہو بھی جائے جس کی امید آپ کررہے ہیں۔ تو اس  سے آپکی زندگی پہ کیا فرق پڑے گا۔۔ ؟ 

یا پھر یہ غلط فہمی ہے کہ ساس کو احساس ہوجائے  گا کہ میں نے کسی کی بیٹی کے ساتھ برا کیا  اس لیے میری بیٹی کے ساتھ برا ہورہا ہے۔     ایسا   قصے کہانیوں یا ڈراموں میں تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقی زندگی میں یہ  تقریباً ناممکن ہے۔ کم از کم میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی کیس نہیں دیکھا۔   لوگ مرتے دم دے تک اس بھرم میں رہتے ہیں کہ زندگی میں انھوں نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک کیا۔ عین ممکن ہے کہ اس بات کا احساس ہو جائے کہ کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن اسکا اقرا ر کبھی کوئی انسان نہیں کرتا۔

بجائے اسکے کہ ہم  اپنی بیٹیوں کو زمانے سے لڑنا سکھائیں۔ حالات کا مقابلہ کرنا اور ہر مسئلے کا حل سمجھائیں۔ ہم اسے ایسی  تاریک خیالی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں  کہ  بس وہ کسی اور کے  ساتھ برا ہونے کا انتظار کرے۔ 

یہ تو یوں ہے کہ کسی اور میں انسانیت کھوجتے کھوجتے  اپنی  ہی انسانیت گنوا دیں۔

آپکا کیا  کہتے ہیں اس بارے میں۔۔ ؟

About Zoya Hassan

HI THIS IS ZOYA HASSAM

Leave a Comment

error: Content is protected !!