چائنہ میں ایک اٹھارہ سالہ جوان لڑکی کو ہسپتال لایا گیا ۔ جس میں ایک دماغی بیماری کی تشخیص ہوئی جسے “لؤو برین” کا نام دیا گیا۔ دراصل وہ لڑکی اپنے بوائے فرینڈ پہ اتنی منحصر ہوچکی تھی کہ اس سے بات کیے بنا وہ رہ نہیں سکتی تھی۔ کئی بار جب وہ اس سے بات نہیں کرپاتا تو وہ گھر کی چیزیں توڑنا شروع کردیتی اور زور زور سے چلاتی۔ جب اس نے ایک دن میں قریب سو دفعہ کال کی اور بوائے فرینڈ نے کال کا جواب نہیں دیا تو اس نے بالکونی سے کود کر خود کشی کرنے کی دھمکی دی۔ بوائے فرینڈ نے ڈر کر پولیس رپورٹ کردی اور اسکی ایسی حالات دیکھ کر فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔
آپ کے ارد گرد بھی ایسے بہت سے کیسز موجود ہوں گے۔ ہم ایسے لوگوں کا مذاق اڑا کے ان کے بارے میں غلط رائے تو قائم کرلیتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس دماغی تناؤ سے گزر رہے ہیں۔ دوست بھی زیادہ سے زیادہ تسلی دیتے یا سمجھاتے ہیں یا پھر اسے اسکے حال پہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس بیماری علاج تو ابھی اس طرح سے دریافت نہیں ہوا لیکن ہم اپنے برتاؤ سے ایسے انسان کو اس دلدل سے بچا سکتے ہیں۔
تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ ایسے لوگوں کا ماضی تاریک ہوتا ہے ، انھیں ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہوتا اور خاص طور پر والدین سے حقیقی پیار نہ ملنا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ جوانی میں پہنچ کر جب انھیں کوئی پیار کرنے والا شخص مل جاتا ہے تو وہ جذباتی لحاظ سے اس سے اتنے جڑ جاتے ہیں کہ انھیں وہ انسان کم اور ذاتی جاگیر زیادہ لگنے لگتا ہے۔ اور یہیں سے تناؤ پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا شخص ہوگا جو کسی اور کے اشاروں پہ جینا چاہے گا۔ کچھ لوگ تو چھوڑ کے چلے جاتے ہیں اور کچھ ا س انسان کی ایسی دماغی حالت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور انھیں ایسے کاموں پہ مجبور کردیا جاتا ہے جسے کرنے کا انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔
صحیح معنوں میں صرف گھر والے اور قریبی دوست ہی ایسے شخص کو سنبھال سکتے ہیں اور اسے اس دلدل سے نکال سکتے ہیں۔ آپکی ذرا سی توجہ کسی کی زندگی بدل سکتی ہے۔ انھیں نظر انداز نہ کریں۔
آپکی کیا رائے ہے؟
تحریر: زویا حسن