محض دلاسا

“سدرہ نے خود کشی کرلی۔۔۔ “

دھک سے دروازہ  کھلا ۔۔   نیلم خالہ   نے  آتے  ہی   ہیبت ناک خبر سنائی۔ امی  چھوٹے  کا سویٹر بن رہی تھیں  انکے ہاتھ وہیں رک  گئے۔ میں اتنی حواس باختہ ہوئی  ٹی وی کا والیم کم کرنے کے بجائے بڑھا دیا۔  کچھ لمحوں کے لیے تو  ہم سب سکتے میں آگئے تھے۔

“کیسے۔۔۔ ؟ کیوں۔۔۔ ؟”

سدرہ آپی  ہنس مکھ اور  ملنسار تھیں۔  اس بات پہ یقین  کرنا ناممکن تھا کہ انھوں نے خود کشی کرلی۔ گلی میں شور برپا  تھا۔ شائد سدرہ کے گھر والے پہنچ گئے تھے۔  امی  نے   چادر   لی اور خالہ کے ساتھ  ان کی طرف نکل   پڑیں۔ میں  دروازے سے باہر جھانکے لگی۔ سدرہ کی والدہ گلی میں  ہی گھٹنوں کے بل بیٹھیں چھاتی پیٹ رہی تھیں ان کی دردناک دھاڑیں اور بین جگر چھلنی کررہے تھے۔ میری تو  سانسیں بھاری  ہونے لگیں۔  دروازہ بند کرکے میں   برآمدے  میں دبک کے بیٹھ  گئی۔

دو سال ہی ہوئے تھے شادی کو انھوں نے تو   سسرال تو کیا محلے داروں کے دلوں میں  بھی گھر بنا لیا تھا۔     آئے دن سدرہ کے گھر سے کبھی کھیر آرہی  ہے تو کبھی بریانی۔   پڑوس میں پڑھی لکھی بہو آجائے تو محلے کی  عورتیں  کا سب  سے پہلا مطالبہ ہی  یہی ہوتا ہے کہ میرے  بچے کو فری  میں ٹیوشن پڑھا دے۔ انھوں نے اس کے لیے بھی کبھی کسی کو منع نہیں کیا ۔

“سدرہ نے خودکشی کیوں کی ہوگی۔۔  ایسی ہنس مکھ  جوان لڑکی کیوں زندگی قربان کرے گی۔۔؟ ”  

اس سوال کا جواب  کسی کے پاس نہیں تھا ۔   دن  ہفتوں میں بدلنے لگے۔ سدرہ  کی موت سے متعلق ہر شخص کا اپنا ہی نظریہ تھا۔ کسی   کی سوچ تھی کہ قتل  کا کیس ہے اور کوئی ساس سسر اور خاوند کے رویے کے بارے میں نئی کہانی گھڑ  کے سنا دیتا۔    لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مجھے اس بات کا یقین ہوچکا تھا کہ سدرہ نے  خود کشی ہی  کی  ہے۔ کیوں کہ میں نے اپنے کانوں سے کچھ ایسا سنا تھا جو شائد کسی اور نہ  سنا ہو۔

ہسٹری  کے نوٹس بنانے میں مجھے ان کی مدد چاہیے تھی شام میں جب میں ان کے ہاں   گئی تو   انکی ساس نے بتا یا  وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ میں  دروازے تک پہنچی تو اندر سے رضا بھائی کی آواز آرہی تھی۔۔ میں  واپس مڑنے ہی لگی تھی  تو احساس ہوا شائد دونوں میاں بیوی کے درمیان کسی بات پہ بحث ہورہی ہے۔۔ آس پاس کوئی موجود نہیں تھا  روایتی خصلت کی بدولت  میں دروازے سے کان لگا کے سننے لگی۔

“میں جاب کروں گی تو اس   گھر کا  ہی بھلا ہوگا۔۔  ابا جی سے بات کیوں نہیں کرتے۔۔”

“وہ نہیں مانیں گے۔۔ کیسے سمجھاوں تمہیں۔۔ سدرہ تمہارے اور میرے گھر کے ماحول میں زمین آسمان کے فرق  ہے۔ ۔”

“ٹھیک ہے اگر  تم  یہی چاہتے ہو تو   ۔۔  لیکن یاد رکھنا میں  ایسے ہی گھٹ گھٹ کے   خود کشی کرلوں گی۔۔ اور اسکے ذمہ دار تم ہوگے۔۔ “

“سدرہ تم پاگل ہو گئی ہو۔۔ ہر روز تم خود کشی کرنے دھمکی   دیتی رہیتی ہو۔۔ “

“یہ دھمکی سچ بھی ہوسکتی ہے۔۔ “

میں اتنا ہی سن پائی ۔  اس سے پہلے وہاں کوئی آتا میں    واپس  چلی  گئی ۔

اس وقت مجھے یہ میاں بیوی کے درمیان ہونے والی روزمرہ  کی نوک جھونک لگی۔ جسے  میں نے بالکل سنجیدہ نہیں لیا۔ لیکن اب لگتا ہے شائد سنجیدہ لینا چاہیے تھا۔ ایک خلش سی  ہے دل میں    کہ شاید  میں  ان سے ایک بار بات کرلیتی انھیں سمجھا لیتی۔

سدرہ کی خود کشی کرنے وجہ  کسی اور کے لیے بہت معمولی سی کیوں نہ ہو لیکن   اس نے اس خواہش کو  دماغ پہ اس  حد تک سوار کرلیا تھا کہ زندگی اسکے سامنے چھوٹی پڑ گئی۔   کوئی انسان چاہے جتنا سمجھدار کیوں نہ ہو لیکن جب وہ چیزوں کے بیچ توازن کرنے میں ناکام ہونے لگے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے  جب آس پاس کے لوگوں اسکی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔

ایک ریسرچ کے مطابق جب لوگ بار  بار خوش کشی کرنے کی  بات کرتے ہیں تو چاہے وہ یہ بات  صرف دھمکی دینے  کی غرض سے  ہی کیوں نہ  کر رہے ہوں لیکن اس  چیز کے چانسز  بڑھ جاتے ہیں کہ  شائد کسی موڑ پہ  وہ یہ قدم اٹھا لیں گے۔ اس کے پیچھے  ایک ہی وجہ کار فرما ہوتی ہے کہ   جب ہم کسی  حساس چیز کے بارے میں بار بار بات کرتے ہیں تو  دماغ اس   چیز کو نارمل لینے لگتا ہے اور انسان  وہ کرجاتا ہے جس  کا کوئی اور تصور بھی نہیں  کرسکتا۔  

اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اردگرد  کسی  شخص کو  ایسے کسی تناو میں دیکھیں تو اس کی مدد کریں۔ اور مدد کا طریقہ صرف ایک ہے وہ  ہے انھیں اس بات کا ااحساس دلانا  کہ زندگی سے بڑھ کے  کچھ بھی نہیں ہے اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس   کا حل نہ ہو۔

اپنی اور اپنے  چاہنے والوں کی زندگی  کے بے مول ہونے سے بچائیں۔

تحریر: زویا حسن

دوستوں سے   شئیر کریں

About adminzoya

HI THIS IS ZOYA HASSAM

Leave a Comment

error: Content is protected !!