ترکِ آشنائی
(حصہ اول)
1
خود پہ حیرت ہوتی ہے۔۔ میں کیسے اتنی بدل گئی۔۔ احساسات سے دھڑکتا دل کب پتھر بن گیا۔۔ دھڑکنیں ساکت ہوئیں۔۔ دہکتے جذبات خنک سانسوں کے گھیرے میں آگئے۔۔۔ بے یقینی اس درجہ بڑھ گئی لگتا ہی نہیں کہ میں زندہ ہوں۔۔۔ جیسے مرے ہوئے صدیاں بیت گئی ہوں۔۔۔ بے جاں جسم ٹہنیوں سے گرتے زرد پتوں کی مانند ہواؤں کے دوش پہ اڑتا پھر رہا ہے۔۔۔ یا تو میں بے بس ہوں یا بے پرواہ۔۔۔ کچھ تو ہے جس نے سبھی حواس سلب کرلیے۔۔۔ ۔۔ لب مسکراہٹ سے انجان اور آنکھ اشک سے۔۔۔ نہ خوشی ،خوش کرتی ہے۔۔ نہ دکھ ، دکھی کرتا ہے۔۔۔
صبح کی کرنیں دھرتی چھونے کو تھیں ۔۔۔۔ جیسن اور کیلی مجھے برلن کے ایک نائٹ کلب سے گھسیٹ کے گاڑی میں لے آئے۔۔۔ بے انتہا نشہ کرنے کے بعد میں نیم مرد ہ حالت میں تھی دماغ کے سبھی دریچے تاریک ہوچکے تھے۔ایک دھندلا عکس سا تھا۔۔ دور کہیں ایک کھڑکی سے ۔۔ دیے کی مدہم روشنی میں ایک معصوم بچی کا سایہ ۔۔۔ چہرہ گھٹنوں میں چھپائے تھرتھرا رہی تھی۔۔ میں اسے آواز دینا چاہتی تھی لیکن پکار گلے میں اٹک سی گئی۔۔۔ ۔۔۔ گاڑی کی رفتار بڑھنے لگیں۔۔ ٹمٹماتی لائٹیں تاریکی میں ڈوبنے لگیں۔
نا جانے کتنے پہر گزر جانے کے بعد بے جان جسم میں حواس لوٹنے لگے۔۔۔ یوں محسوس ہوا جیسے میرا سر کسی بھاری چٹان کے نیچے ہے۔۔۔ با مشکل پلکیں کھلیں ۔۔۔ خشک گلا چیرتے ہوئے ایک گہری سانس ٹوٹتے جسم کے اندر داخل ہوئی۔۔ ۔۔۔ ونڈو کے شفاف شیشوں سے باہر کی تاریکی احساس دلا رہی تھی کہ ایک اور گہری رات چھا چکی ہے۔۔۔
“وہ کون لوگ ہیں جو چند گھنٹے سو کے بھی فریش ہو جاتے ہیں۔۔ میں تو جب بھی بیدار ہوتی ہوں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے نیند میں بھی سینکڑوں میلوں کی مسافت طے کی ہو۔۔۔”
میں نے بکھرے ہوئے بالوں کو سمیٹا اور بڑی کوشش سے بیڈ سے اتری۔۔۔
“تھینکس گاڈ یو ۔۔۔یو آر اپ۔۔۔۔!!!”
(“خدا کا شکر ہے تم اٹھ گئیں۔۔۔!!)
دھک سے دروازہ کھلا۔۔۔ جیسن کمرے میں داخل ہوا
میں نے اسکے چہرے پہ سرسری نظر دوڑائی
“مجھے کوفی چاہیے۔۔!!!”
اتنا کہہ کہ میں باتھ روم کی طرف بڑھی۔۔۔
“میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔۔۔۔”
اسکی آواز میں گہری اداسی تھی جس نے مجھے رکنے پہ مجبور کردیا۔۔ میری سوالیہ نظریں اسکے چہرے پہ تھیں۔۔۔
وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا۔۔ میں چڑ گئی
“جیسن۔۔۔! میں سن رہی ہوں”
اسکی خاموشی سے میں نے یہی انداز ہ لگایا کہ وہ میرے ساتھ مزید نہیں رہنا چاہتا۔۔
“تم جا سکتے ہو۔۔۔ مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے”
میرے لیے بریک اپ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔۔۔ بیسیوں مرتبہ ہوچکا تھا اب کسی کا میری زندگی میں آنا یا چلے جانا۔۔ نہ تو حیران کرتا تھا اور نہ ہی میں اس طرح کی چیزوں کو دماغ پہ سوار کرتی ۔۔۔ ۔۔۔ یہ بات اپنی جگہ سچ ہے کہ جیسن وہ واحد آدمی تھا جس کے ساتھ میں نے چھ ماہ گزار لیے تھے۔۔ اور کئی بار مجھے شدت سے احساس ہوتا تھا کہ شائد اسے مجھ سے سچی محبت ہوگئی ہے۔۔ کئی بار یہ بھی خیال پریشان کر دیتا کہ وہ بے چارہ غلط انسان پہ اپنے جذبات اور وقت ضائع کررہا ہے۔۔۔۔۔اگر آج وہ خود بریک اپ نہیں کرتا تو آنے والے چند دنوں میں خود اسے یہ کہنے والی تھی کہ میری زندگی میں اسکے لیے مزید جگہ باقی نہیں ہے۔۔
“تمہارے بابا وفات پاگئے ہیں۔۔”
ایک ہی لمحے میں اس نے میرا اندازہ غلط ثابت کردیا
اسکی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی ضرور تھی۔۔ لیکن اس کا اثر مفلوج دماغ پہ ہوا اور نہ ہی ارتعاش دھڑکنوں میں طوفان لایا۔۔۔ لیکن جیسن کسی غلط فہمی میں میری طرف لپکا شائد وہ دکھ باننٹنے کے لیے مجھے گلے سے لگاتا۔۔ اس کے قریب آنے سے پہلے ہی ۔۔ میں باتھ روم میں آگئی۔۔۔ اور دروازہ بند کردیا۔۔۔ شائد اسے میرے رد عمل سے حیرت ہوئی ہو۔۔۔ لیکن مجھے نہ تو اس خبر سے کوئی حیرت یا دکھ ہوا تھا۔۔ اور نہ ہی اپنے روّیے سے۔۔۔۔
کوموڈ پہ بیٹھتے ہی میں نے گہری سانس لی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو دونوں ہاتھوں میں سمیٹ کر چہرہ کہنیوں کے بیچ رکھ لیا۔۔ میرے اندر کہیں ایک خواہش ضرور جاگی کہ میں ایک بیٹی کی طرح باپ کے مرنے پہ دھاڑیں مار کے روں۔۔۔ سوگ مناؤں ۔۔ دہائیاں دوں۔۔۔ لیکن میرا لاغر دماغ انکی شکل اور خدوخال ہی بھول چکا تھا ۔۔۔دل میں درد کی لہر کہاں سے اٹھتی۔۔۔ پھر مجھے یاد آیا۔۔۔۔ انھیں دفن کیے تو ایک عرصہ بیت چکا ہے۔۔ باپ بیٹی کے رشتے کی راکھ تو صدیوں پہلے ہواؤں کی نظر ہوچکی تھی۔۔۔
“آر یو اوکے۔۔۔۔ ؟؟”
جیسن کی آواز نے مجھے چونکایا۔۔۔
“یا آئی ایم فائن۔۔ جیسن۔۔۔۔!! “
میں نے چلا کے جواب دیا
میں باتھ روم سے باہر نکلی تو جیسن لیپ ٹاپ پہ کچھ کررہا تھا۔۔ میں ٹیبل پہ پڑا کوفی کا مگ اٹھانے لگی۔۔۔ جیسن کو لگ رہا تھا کہ میں صدمے میں ہوں۔۔۔ اس لیے وہ دوبارہ میری طرف بڑھا۔۔۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔ فارمیلیٹی کی ضرور ت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
میں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا
صوفے پہ بیٹھ کے میں نے کوفی کا سپ لیا۔۔۔ وہ بڑے انہماک سے میرے چہرے کے تاثرات پڑھنے لگا۔۔۔ مجھے اس کے روّیے سے کوفت ہورہی تھی۔۔۔۔
“کیا کررہے ہو تم۔۔۔۔ ؟؟”
میں نے سوال کیا
“تمہارے لیے ائیر ٹکٹ بک کررہا ہوں۔۔ صبح پانچ بجے کی فلائیٹ ہے۔۔۔ “
“واٹ۔۔۔!! ائیر ٹکٹ ۔۔۔ کہاں کی۔۔۔ اور کیوں۔۔۔ ؟”
میں حیران ہوئی
اس نے ایک نظر بے یقینی سے مجھے دیکھا۔۔
“تمہیں جانا چاہیے۔۔۔۔!!”
“کہاں۔۔۔؟”
“اپنے گھر۔۔۔۔”
“میں اپنے گھر ہی ہوں۔۔۔ “
“اس وقت تمہاری فیملی کو ضرورت ہے تمہاری۔۔۔ “
“میری کوئی فیملی نہیں ہے۔۔۔ “
” تمہارے باپ کی وفات ہوئی ہے۔۔۔ تمہیں فرق نہیں پڑا۔۔۔۔ ؟؟”
میں نے جیسن کو اس سے زیادہ حیران کبھی نہیں دیکھا تھا
میں اسے بنا کوئی جواب دیے۔۔۔ کمرے سے اٹھ کے لاؤنج میں آگئی۔۔۔ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آیا۔۔۔
“ویسے تم تک یہ خبر کس نے پہنچائی۔۔۔؟”
مجھے امید نہیں تھی کہ میرے دماغ میں ایسا بھی کوئی سوال جنم لے سکتا ہے۔۔
“میں کل رات تمہارے لیپ ٹاپ پہ کچھ کام کررہا تھا۔۔ تمہارے بابا کے وکیل نے ای میل میں اطلاع دی ہوئی تھی۔۔۔ آئی تھنک وہاں کسی کے پاس تمہارا کانٹیکٹ نمبر نہیں ہوگا اس لیے ای میل آئی ہے۔۔۔ “
“اگر ہوتا ۔۔۔ تب بھی کسی نے یہ زحمت نہیں کرنی تھی۔۔۔ “
میں بڑبڑائی ۔۔۔ وہ سمجھ نہیں پایا۔۔۔
اسے لگ رہا تھا میں مزید اس بارے میں کوئی بات کروں گی لیکن میر ے پاس اس موضوع پہ بات کرنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔۔ اس لیے وہ اٹھ کے جانے لگا۔۔۔
“میں نے ٹکٹ بک کر دی ہے اگر مناسب سمجھو تو چلی جانا۔۔۔ نہ بھی جانا چاہو تو ایک بار کی ای میل ضرور پڑھ لینا۔۔۔ کیوں کہ اس میں تمہارے بابا کی پراپرٹی کا بھی ذکر ہے۔۔۔۔ اور میرے خیال میں ان کی کسی اور چیز سے تمہارا لینا دینا ہو یا نہ ہو ۔۔۔ لیکن پراپرٹی سے ضرور ہوگا۔۔ کیوں کہ اسی بل بوتے پہ تو تمہاری تمام عیاشیاں چل رہی ہیں۔۔۔۔ “
شائد مجھ سے زیادہ دکھ جیسن کو ہوا تھا۔۔ اس لیے وہ دکھ اور غصے میں طنز کرتا باہر چلا گیا۔۔۔۔