2
میں ہر ممکن کوشش کررہی تھی کہ اپنے خواب آلود ذہن کو اس چیز سے دور رکھ سکوں۔۔۔ لیکن جیسن نے غلط جگہ وار کیا تھا۔۔۔ اس لیے مجھے سوچنا ہی پڑا۔۔ طنز میں سہی لیکن وہ سچ کہہ گیا تھا۔۔ چاہے میں اپنے باپ سی کتنی لاتعلق کیوں نہ رہوں۔۔۔ لیکن میری زندگی اب بھی ان کے پیسے کی محتاج تھی۔۔ اگر ہر ماہ تواتر سے میرے اکاؤنٹ میں رقم نہ آتی رہیتی تو نہ جانے میں اب کس حال میں ہوتی۔۔۔۔ حال کا خیال آتے ہی مجھے ہنسی آگئی۔۔۔۔
ای میل چیک کرنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے جائیداد کے حوالے سے ان کی جو وصیت ہے اسکے لیے میرا جانا ضروری ہے۔۔ مجھے وکیل سے بات کرنی پڑے گی۔۔۔
سوائے خود غرضی کے میرے اندر دنیا کی ہر برائی کوٹ کوٹ کے بھری تھی۔۔۔ اور آج اس خصلت نے بھی جنم لے ہی لیا۔۔۔۔ خود سے گھن تو ضرور آئی ۔۔۔ لیکن ہر چیز کی طرح اس گھن کو بھی پسِ پشت ڈالا۔۔ ای میل میں درج وکیل کا نمبر ڈائل کیا۔۔ فون نہیں اٹھایا گیا۔۔ اس سے پہلے کے میں دوبارہ ٹرائی کرتی۔۔۔ وقت کے فرق کا اندازہ ہوا۔۔ صوفہ پہ ٹانگیں پھیلا کے لیٹتے ہوئے میں نے فون ٹیبل پہ اچھالا۔۔۔۔ کچھ ہی منٹ بعد فون کی بیل بجی میں نے کال اٹنڈ کی۔۔۔
“آپ مرحوم خاور الیاس کی صاحبزادی بات کررہی ہیں۔۔ ؟”
اس سے پہلے میں کچھ کہتی وکیل صاحب خود ہی بول پڑے
“جی۔۔۔!”
میں نے آہستگی سے جواب دیا
“آپکے والد کی وفات کا بے حد افسوس ہوا۔۔۔ میں تو مسلسل آپ کے ہاں جاتا رہاں ہو۔۔ لیکن اطلاع یہی ملی کے آپ واپس نہیں آئی ہیں۔۔ ظاہر ہے کسی مجبوری کی بنا پہ آنا نہ ہوسکا ہوگا۔۔ ورنہ کون بیٹی اپنے باپ کی وفات پہ نہ آئے۔۔۔ “
ان کے افسوس کے جواب میں میرے پاس کچھ نہیں تھا۔۔۔ اس لیے خاموش رہی۔۔
“کل قل خوانی کی رسم میں آپ کے چچا سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔۔ میں نے آپکا فون نمبر مانگا لیکن انھوں نے بتایا کہ آپ کسی سے رابطے میں نہیں ہیں۔۔ مجبوراً مجھے خاور صاحب کی کمپنی سے آپکا ای میل لینا پڑا۔۔۔۔۔ “
ان کی تمہید لمبی ہوتی جارہی تھی۔۔ اور میری برداشت کم پڑ نے لگی۔۔۔
“آپ وصیت کا کچھ ذکر کررہے تھے۔۔۔ “
میں سفاکی سے مدع پہ آئی
“جی جی۔۔۔ بالکل۔۔ اسی وصیت کے سلسلے میں آپ سے بات کرنی تھی۔۔۔ “
“جی بتائیں۔۔۔!!”
” آپ واپس کب تک آرہی ہیں۔۔۔ ؟”
ان کے سوال پہ میں چونکی
“میرا واپس آنا ضروری ہے۔۔ ؟”
“جی صاحبہ۔۔! وصیت پر عمل درآمد کے کچھ قانونی تقاضے ہیں۔۔ جو آپکی موجودگی میں ہی پورے ہوسکتے ہیں۔۔۔ “
ان کی بات سن کے میں خاموش ہوگئی۔۔۔ مجھے ان کی وصیت سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔۔ میں بس اتنا چاہتی تھی کہ میرے اکاؤنٹ میں جس طرح سے بابا کی کمپنی سے رقم آتی ہے بلا رکاوٹ آتی رہے۔۔۔۔ لیکن یہ بات کھلے لفظوں میں کرنا غیر موزوں تھا۔۔
“میں کچھ دنوں تک کال کروں گی آپکو ۔۔۔ لیکن میں یہی چاہتی ہوں کہ آپ کوئی ایسا حل نکالیں کہ مجھے آنا نہ پڑے او ر جو بھی قانونی لوازمات ہیں وہ آپ خود ہی دیکھ لیں۔۔ “
“ایسا ممکن ہوتا تو میں یقیناً آپکو زحمت نہ دیتا۔۔۔ آپ کو آنا ہی پڑے گا۔۔ اور بہتر یہی ہے جتنا جلدی ہوسکے آجائیں۔۔۔ کیوں کہ ایسے کاموں میں دیر ہوجائے تو مسائل جنم لیتے ہیں۔۔ ظاہر ہے آپکے والد کے اور بھی رشتہ دار حیات ہیں۔۔۔ “
انھوں نے دبے لفظوں میں خطرے کے پیشن گوئی کردی ۔۔۔
فون بند ہوتے ہی میں نے سر پکڑ لیا۔۔۔ میں واپس نہیں جانا چاہتی۔۔۔
دماغ میں ایک طوفان برپا تھا۔
“پلیز۔۔۔! شراب مت پینا۔۔۔۔ کچھ ہی گھنٹوں میں فلائیٹ ہے۔۔۔ میں ائیر پورٹ چھوڑنے ساتھ چلوں گا۔۔۔۔ “
جیسن کا میسج موبائل سکرین پہ نمودار ہوا۔۔۔ میں نے بے بسی میں آنکھیں موند لیں۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
انسان دنیا کی ہر چیز پہ فتح حاصل کرسکتا ہے لیکن لالچی فطرت اسے ہرا کے دم لیتی ہے۔۔ لالچ میں انسان کس حد تک گر سکتا ہے۔۔ مجھے پہلی بار اندازہ ہورہا تھا۔۔۔۔۔ آٹھ سال پہلے میں یہ قسم کھا کے نکلی تھی کہ میں مر تو جاؤں گی لیکن کبھی واپس نہیں لوٹوں گی۔۔ لیکن آج وہ قسم توڑنی پڑ رہی تھی۔۔۔
میرے ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ دیکھ کے جیسن کو حیرت ہوئی۔۔۔
“حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں وہاں ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رکوں گی۔۔۔”
اس نے بحث سے اجتناب کیا۔۔ کچھ ہی دیر میں اس نے مجھے ائیر پورٹ ڈراپ کیا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں فلائیٹ کی اناؤنسمنٹ ہونے لگی۔۔ جیسن ہاتھ ہلاتا رہا میں بنا جواب دیے آگے بڑھ گئی۔
جیسے جیسے جہاز اڑان بھر رہا تھا میں ماضی کی گہری کھائی میں گرتی چلی جارہی تھی۔۔۔ وہ سبھی چہرے جنھیں میں دماغ کے ہر کونے سے مٹا چکی تھی۔۔ پھر سے نمودار ہونا شروع ہوگئے۔۔۔ جن آوازوں کو میری سماعتیں بھول چکی تھی۔۔ انکی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں۔۔۔
میں کسی عزیز رشتہ دار کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔۔ اندازہ تھا کہ بابا کے بعد سینکڑوں گِدھوں نے ہمارے گھر پہ قبضہ جما لیا ہوگا اور کچھ تو ان کی زندگی میں ہی قابض ہوچکے تھے۔۔ اس گھر میں جانا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔۔ اس لیے نکلنے سے پہلے میں نے ہوٹل بکنگ کرالی ۔۔میرا ارادہ تھا کہ خاموشی سے وکیل سے ملوں گی۔۔ ضروری کاروائی مکمل کرکے واپس آجاؤں گی۔۔۔
شام سات بجے جہاز لینڈ ہوا۔۔۔ میری دھڑکن معمول سے بہت سست تھی۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا رہا تھا۔۔۔ ائیر پورٹ سے باہر نکلتے وقت دل کررہا تھا۔۔ دوڑ کے واپس چلی جاؤں۔۔۔ کیوں آئی میں یہاں۔۔۔ خود کو اور اپنی غلیظ فطرت کو کوستی رہی۔۔ یہاں تک آکے واپس جانے کی غلطی نہیں کرسکتی ۔۔۔
ٹیکسی لے کر ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے بار بار دل ڈوب رہا تھا۔۔ میں اس دھرتی کے ذرے کا بھی سامنا کرنے سے کترا رہی تھی۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد میں ہوٹل پہنچی۔۔۔ فریش ہونے کے بعد سب سے پہلا کام یہی تھا کہ میں وکیل کو اپنی آمد کی اطلاع کردوں ، میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
“میں واپس آگئی ہوں۔۔ کل کس وقت ملاقات ہوسکتی ہے۔۔ ؟”
“کل میں کورٹ سے دو بجے تک فارغ ہوجاؤں گا۔۔ اس کے بعد آپ جب چاہیں۔۔۔ “
“ٹھیک ہےآپ آفس لوکیشن شئیر کردیں میں دو بجے آکے ملتی ہوں۔۔۔ “
“نہیں۔۔ آپکو میرے آفس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں خود ہی پانچ بجے تک آپ کے گھر چکر لگا لوں گا۔۔۔ حمدان صاحب سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔۔۔ “
“حمدان۔۔۔!!!!”
یہ نام سن کے میرا خون کھول اٹھا۔۔۔ مجھے مرنا تو پسند تھا لیکن اس شخص کے منہ لگنا۔۔۔ ناممکن۔۔۔۔
“حمدان سے ملنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔۔ وہ میرے بابا کی سگی اولاد نہیں ہے۔۔۔ “
“میں جانتا ہوں۔۔۔ حمدان مرحوم خاور الیاس کی سگی اولاد نہیں ہے۔۔ لیکن اس وقت وہ مرحوم کی کمپنی کے سی ای او ہیں۔۔اور ان کی ساری پراپرٹی فلحال حماد صاحب کی تحویل میں ہے۔۔۔ “