3
“حمدان کو یہ اتھارٹی کس نے دی۔۔ میں خاور الیاس کی سگی اولاد ہوں۔۔ میرے ہوتے ہوئے کوئی اور اس پراپرٹی کا مالک کیسے ہوسکتا۔۔ اگر کل ہی آپ مجھے یہ بات بتا دیتے تو میں واپس ہی نہیں آتی۔۔۔ “
میرا لہجہ بتدریج تلخ ہوتا جارہا تھا
“دیکھیں۔۔۔! چند چیز یں بڑی اہم ہیں۔۔۔ حمدان صاحب کو یہ ساری ذمہ داریاں خاور الیاس صاحب اپنی زندگی میں ہی سونپ گئے تھے۔۔ اور ان کی وصیت کے کچھ اہم نکات حمدان صاحب کے متعلق بھی ہیں۔۔ جن سے نہ تو میں انحراف کر سکتا ہوں اور نہ ہی آپ۔۔۔۔ میں کل آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھ کے تفصیلات سے آگاہ کر دوں گا۔۔۔ “
ان سے مزید بحث لا حاصل تھی۔۔۔ میں نے غصے میں فون بیڈ پہ پٹخ دیا۔۔۔
جیسن نے واٹس ایپ پہ کافی میسجز کیے ہوئے تھے۔۔ میں نے ابھی تک اسے اپنے پہنچنے کی اطلاع نہیں دی تھی۔۔ اسکی واٹس ایپ کال آنے لگی۔۔۔ میں اس وقت اس سے بات کرنے کے موڈ میں بالکل نہیں تھی۔۔۔ لیکن مجھے یہ بھی اندازہ تھا کہ جب تک میں اس سے بات نہیں کرلوں گی وہ کالز کرتا رہے گا۔۔۔ مجبوراً مجھے بات کرنی پڑی
“جیسن۔۔! میں پہنچ گئی ہوں۔۔۔ بہت زیادہ تھکی ہوئی ہوں۔۔۔ تم سے کل بات ہوگی۔۔۔۔ “
اس کے کچھ کہنے سے پہلے میں بول پڑی
“اوکے ۔۔ اوکے۔۔ تم میسج ریپلائی نہیں کررہی تھی اس لیے کال کی۔۔ ریسٹ کرو۔۔۔ اور پلیز۔۔۔ اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔ “
وہ دنیا میں اکلوتا انسان تھا جسے میری پراہ تھی۔۔۔ اور اسکی اس پرواہ سے مجھے سخت چڑ تھی۔۔۔
مجھے سخت بھوک لگی تھی۔۔ لیکن حمدان کے ذکر نے ساری بھوک مٹا دی۔۔۔۔
“مجھے آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔ پہلے ہی سوچ لیتی کہ بابا کے بعد دونوں ماں بیٹا ہر چیز پہ قابض ہوگئے ہوں گے۔۔۔ بے وقوف ہوں میں۔۔ ایسے ہی وکیل کی باتوں میں آگئی۔۔۔ ان لوگوں کے منہ لگنے سے بہتر ہے میں واپس چلی جاؤں۔۔۔ “
میں نے من ہی من واپسی کا ارادہ کر لیا۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــ
سہ پہر تین بجے میں ہوٹل سے نکلی۔۔۔
ٹیکسی ایک بنگلے کے سامنے سے گزری تو میں نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا۔۔۔
“اف ۔۔۔۔!! تو بالآخر وقت مجھے پھر سے وہیں لے آیا۔۔۔۔ “
میں نے ایک گہری سانس لی۔۔۔ ٹیکسی وہاں سے چلی گئی اور میں سڑک کے بیچوں بیچوں کھڑی اس بڑے سے گیٹ کو دیکھ رہی تھی۔۔ جس کے پیچھے ایک شاہانہ محل سالوں سے میری راہ تک رہا تھا۔۔۔ نہ چاہتے ہوئے میں ڈور بیل تک پہنچی۔۔۔ گیٹ کے ساتھ بنے سیکیورٹی کیبن کی ونڈو سلائیڈ ہوئی۔۔۔ سیکیورٹی گارڈ کی آواز پہ میں ونڈو کے قریب آئی۔۔۔
“آپ کون ہیں اور کس سے ملنا ہے۔۔۔ ؟؟”
سیکورٹی گارڈ نے سر سے پاؤں تک نظر دوڑائی۔۔ میں اسکی پہچان میں نہیں آرہی تھی۔۔۔
“گیٹ کھولیں۔۔۔ مجھے اندر جانا ہے۔۔۔ “
کتنا مشکل تھا یہ چند الفاظ ادا کرنا۔۔۔ میرا گلہ شدید خشک ہورہا تھا۔۔
“بی بی۔۔! آپکو ملنا کس سے ہے۔۔۔ ایسے تو میں گیٹ نہیں کھول سکتا۔۔۔۔”
سیکورٹی گارڈ نے سختی برتی
“حمدان سے۔۔۔۔ “
اس نام کا میری زبان سے ادا ہونا زہر کا پیالہ گلے سے اتارنے کے مترادف تھا۔۔
“حمدان صاحب نہیں ہیں۔۔۔ آپ کی ان سے بات ہوئی ہے۔۔۔؟؟”
“دیکھیں بحث مت کریں مجھے اندر جانے دیں۔۔ “
میرا لہجہ تلخ ہوا
“اپنا نام بتا دیں ۔۔۔ میں اندر اطلاع کردیتا ہوں۔۔۔ “
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔ گارڈ کو میرے غصے کا اندازہ ہوگیا۔۔۔ اس نے انٹرکوم پہ کسی سے بات کی اور چند لمحوں بعد گیٹ کھل گیا۔۔۔ گیٹ تو کھل گیاتھا۔۔۔ لیکن گیٹ پار کرنے کی سکت نہ رہی۔۔۔ دل تھا کے بار بار واپس مڑنے کے لیے مچل رہا تھا۔۔۔ جیسے چیخ چیخ کے کہ رہا ہو۔۔۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔۔۔۔ واپس چلی جاؤ۔۔۔ لیکن دماغ اتنی جلدی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں تھا۔۔۔۔
“اب کیا ہوا۔۔۔! گیٹ کھل گیا تو آپ اندر نہیں آرہیں۔۔۔”
سیکورٹی گارڈ میرے روّیے سے ہی پریشان تھا
میں نے ساری سوچیں پسِ پشت ڈالیں۔۔۔ اور اندر داخل ہوگئی۔۔۔ چاروں طر ف سرسری نظر دوڑائی۔۔۔۔ کئی کنالوں پہ پھیلا یہ محل آج بھی اسی شان سے سر اٹھائے کھڑا تھا۔۔۔ فطری تھا کہ میں اس میں تبدیلیاں نوٹ کروں۔۔۔ زندگی کے بیس سال کاٹے تھے یہاں۔۔۔ کافی کچھ بدل گیا تھا۔۔ لیکن بہت کچھ آج بھی ویسا ہی تھا۔۔۔ اس سے پہلے یادِ ماضی مجھے گھیر لے۔۔ اور میں یہاں ڈھیر ہو جاؤں۔۔ میں آگے بڑھی۔۔۔۔ بظاہر بالکل خاموشی تھی۔۔ لیکن ضرورت سے زیادہ گاڑیوں کی موجودگی۔۔ عجیب سے وہم میں مبتلا کررہی تھی۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں۔۔۔ ایک انجان سا احساسِ جرم تھا جس نے حواس کو بری طرح جکڑ لیا۔۔۔۔ جیسے کوئی قیدی عمر قید کاٹنے کے بعد لوٹے تو وہ دنیا سے چھپنے کی کوشش کرتا ہے۔۔ لوگوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ ختم ہوجاتا ہے۔۔۔ میں بھی کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔ حمدان کی حد تک تو میں نے خود کو بڑی مشکل سے منالیا تھا لیکن کوئی اور۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ دل نہیں مان رہا تھا۔۔۔۔ حمدان کی مما کا تو سوچا ہی نہیں۔۔۔ ظاہر وہ بھی یہیں ہوں گی۔۔۔ عجیب سے وسوسے بے چین کیے جارہے تھے۔۔۔۔ گھر کی مین انٹرنس کے پہلے زینے پہ پاؤں جم گئے۔۔۔ کافی دیر میں وہیں رکی رہی۔۔ آگے نہیں بڑھی۔۔۔ میں سوچ نہیں سکتی تھی۔۔۔ واپس لوٹنا اتنا مشکل ہوگا۔۔۔ اتنے میں دروازہ کھلا۔۔
“آئیں ۔۔۔ اند رآئیں۔۔۔ سب اند رہی ہیں۔۔ “
چودہ پندرہ سال کی ملازمہ نے دروازہ کھول کے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔ اب یہاں سے بھاگنا ناممکن ہوچکا تھا۔۔۔ اندر داخل ہوتے ہی اندازہ ہوا کہ خواتین کی محفل چل رہی ہے۔۔۔ کہاں میں چند لوگوں کا سامنا کرنے سے کترا رہی تھی۔۔۔ اور کہاں ایک ساتھ اتنی خواتین کی نظروں کا مرکز تھی۔۔۔ پہناوے اور حرکات سے صاف عیاں تھا کہ نام نہاد دینی محفل گرم ہے۔۔۔
سرخ آنکھوں کے گرد گہری سیاہی ، بے ڈھنگے بال ، عام سے ٹی شرٹ ۔۔ بے تکی جینز ۔۔ ۔ جو لڑکی ہائی سوسائیٹی کی بیگمات کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں خاور الیاس کی سگی اولاد تھی۔۔۔ ان کی کھسر پھسر پہ کان دھرنے کی بجائے۔۔۔ چند قدم آگے بڑھی۔۔۔ میں ان بیبیوں میں سے اپنی پہچان کا چہرہ تلاش کرنے لگی۔۔۔۔ اتنے میں ایک کونے سے آواز آئی۔۔۔
“یہ تو اپنی تانیہ ہے۔۔۔۔!!”
بیگمات میں کھلبلی مچ گئی
“ہائے۔۔۔ میر ے اللہ۔۔۔۔۔ ارے خاور بھائی۔۔۔۔ آکے تو دیکھیے۔۔۔ اتنے سالوں بعد آپکی بیٹی واپس لوٹی ہے۔۔۔ کون استقبال کرے گا۔۔۔۔ اس بے چاری کا۔۔۔۔ “
بین کرتی ایک خاتون میری طرف لپکیں۔۔۔۔ تائی جان کو میں نے ان کی نیم مردانہ آواز اور اوور ایکٹنگ سے پہچان لیا ۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ دکھاوا کرتے ہوئے مجھ سے لپٹ جائیں میں نے دونوں ہاتھوں سے انھیں دور رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ ان کے ساتھ ساتھ وہاں موجود سبھی خواتین میرے روّیے سے بوکھلا گئیں۔۔۔
تائی پکی کھلاڑی تھیں۔۔ مجھے بازو سے دبوچ کے کمرے میں لے جانے لگیں۔۔ دکھ بھرے انداز میں بولیں۔۔
“رخسانہ۔۔۔!! پانی لے آؤ۔۔۔ سفر سے تھکی ہوئی آئی ہے میری بچی۔۔۔۔۔!!”