4
“چھوڑیں مجھے۔۔۔ !! “
کمرے میں داخل ہوتے ہی میں چلائی
“اب کیا لینے آئی ہو یہاں۔۔۔ تمہارے باپ کی موت کو کئی دن گزر چکے ہیں۔۔۔۔ آج منہ اٹھا کے آگئی تم۔۔ خاندان کو دنیا کے سامنے ذلیل کرنے۔۔۔ “
تائی غرائیں
“میری مرضی ۔۔جو کروں۔۔۔ آپ کون ہوتی ہیں ۔۔ باتیں سنانے والی۔۔ یہ دکھاوا باہر جا کے کریں۔۔ مجھ پہ یہ باتیں بے اثر ہیں”
“پورا خاندان واقف ہے کہ تم انسان نہیں پتھر ہو۔۔۔۔ آٹھ سالوں میں ایک بار بھی مڑ کے خبر نہ لی باپ کی۔۔ خاور بھائی آخری دنوں میں آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔۔۔ ارے تم سے اچھا تو حمدان ہے۔۔ جو سگی اولاد نہ ہوتے ہوئے بھی۔۔ بیٹے کے فرض نبھاتا رہا۔۔ اور آج بھی نبھا رہا ہے۔۔۔ خدا تمہارے جیسی اولاد کسی کو نہ دے۔۔۔۔ “
“اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہوں۔۔۔ یہاں سے چلی جائیں۔۔ اور حمدان سے کہیں کہ مجھے آکے ملے۔۔ زیادہ وقت نہیں میرے پاس۔۔۔ “
وہ منہ کھولنے ہی لگی تھیں ۔۔۔ ملازمہ اندر داخل ہوئی۔۔ تائی پھنکارتی ہوئی باہر چلی گئیں۔۔۔
ملازمہ نے پانی کا گلاس ٹیبل پہ رکھا۔۔ اور بڑے انہماک سے مجھے دیکھنے لگی۔۔
“آپ کو مزید کچھ چاہیے۔۔۔ ؟”
“نو تھینکس۔۔۔! “
میں ہیند بیگ سے موبائل فون نکالنے لگی
ملازمہ کمرے سے باہر نکلی تو دروازہ ہلکا سا کھلا رہ گیا۔۔ گھسر پھسر سے اندازہ ہورہا تھا کہ چند خواتین دروازےکے پاس کھڑی ہیں۔۔
“توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ چہرے پہ لعنت پڑ رہی ہے۔۔۔ حالت دیکھی ہے اس لڑکی کی۔۔۔ “
میری رشتہ دار عورتیں۔۔ دینی محفل چھوڑ کے میرے نام کی قوالی کرنے میں مصروف تھیں۔۔
“میں حیران ہوں۔۔ اتنے سالوں بعد کیسے آگئی یہ۔۔ آنا ہی تھا تو باپ کی وفات پہ آتی۔۔۔ “
“آپا۔۔۔! ہوسکتا ہے حمدان نے اسے اطلاع ہی نہ دی ہو۔۔۔ یا پھر خاور بھائی نے خود ہی منع کیا ہو ۔۔ ہم تو اتنے سال بعد آج اسے دیکھ رہے ہیں۔۔ باپ کو تو پتا ہی ہوگا۔۔ “
“یقین مانیں۔۔۔ میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔۔۔۔ اسکی شکل دیکھ کے۔۔۔۔ اف میرے خدایا۔۔۔ آپ نے جب نام لیا ۔۔۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ۔۔۔۔ “
“خالہ آپکو پتا ہے۔۔۔ پانچ، چھ سال پہلے۔۔ عمار بھائی نے اسے لندن میں کسی گورے لڑکے کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔ ادھ ننگے کپڑے پہنے گلیوں میں منہ کالا کرنے پہ لگی ہوئی تھی۔۔۔ عمار بھائی کہتے ہیں میری تو ہمت نہیں ہوئی اس سے بات کرنے کی۔۔۔ “
“تمہارے خالو بتا رہے تھے کہ یہ لڑکی کسی ایک ملک یا شہر میں ٹکتی ہی نہیں۔۔ کبھی یہاں کبھی وہاں۔۔۔ تبھی خاور بھائی سے جب بھی کوئی پوچھتا کہ تانیہ کہاں رہ رہی ہے تو وہ بات گول کرجاتے تھے۔۔۔ انھیں خود بھی پتا نہیں ہوگا کہ کہاں رہیتی ہے کس کے ساتھ رہیتی ہے۔۔۔ کیسی ذلیل لڑکی ہے۔۔”
“وہاں کی تو چھوڑو۔۔۔ یاد نہیں۔۔ یہاں کیسے کیسے قصے مشہور تھے اسکے۔۔۔ یہ شروع سے ہی ایسی ہے۔۔۔۔ “
میں چاہ کے بھی ان لوگوں کی بکواس کو ان سنا نہیں کرپا رہی تھی۔۔ اسی وجہ سے میں یہاں نہیں آنا چاہتی تھی۔۔۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تھا۔۔ میں نے اٹھ کے زور سے دروازہ بند کیا۔۔ تاکہ ان لوگوں کی سرگوشیا ں مجھ تک نہ پہنچ پائیں۔۔ دروازہ بند ہونے سے وہ بھی بوکھلا گئیں۔۔ شائد انھیں اندازہ نہیں تھا کہ میں سب سن رہی ہوں۔۔۔ اس سے ایک چیز تو بہت اچھی ہوئی۔۔ کسی نے ملنے کے بہانے اندر قدم نہیں رکھا۔۔
“تم مجھے اگنور کررہی ہو۔۔۔ “
جیسن کا میسج آیا۔۔۔ مجھے کال کرنی ہی پڑی۔۔
“جیسن۔۔! تمہیں کیا لگتا ہے۔۔ یہاں سب ایزی ہے۔۔ میں سکون سے سو رہی ہوں۔۔ لیکن تم سے بات نہیں کررہی۔۔۔۔ یو نو۔۔ میں نے رات ہوٹل میں گزاری۔۔۔ “
“واٹ۔۔۔! تم کسی مسئلے میں ہو۔۔۔ ؟ بتاؤ تو سہی کچھ۔۔۔ گھر کیوں نہیں گئیں”
“فرض کرو۔۔ میں کسی مسئلے میں ہوں۔۔ تو کیا مدد کرسکتے ہو تم میری۔۔۔ ؟”
“تم مجھ سے شئیر تو کرسکتی ہو۔۔۔ ہو سکتا ہے میں اچھا مشورہ دے دوں ۔۔ “
“فلحال مجھے تمہارا مشورہ نہیں چاہیے۔۔ بس اتنا چاہتی ہوں کہ مجھے ٹائم دو۔۔۔ جب سب نارمل ہوجائے گا۔۔۔ میں تم سے بات کرلوں گی۔۔۔۔ “
“مجھے بالکل اندازہ نہیں ہے۔۔ تم کس حال میں ہو۔۔ کیا کررہی ہو۔۔ کیا نہیں۔۔۔ اتنا تو پتا کرنا میرا حق ہے۔۔۔ “
“جیسن۔۔۔! میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔۔۔ “
مجھے پھر سے غصہ آنے لگا۔۔۔
“میں جانتا تھا ۔۔۔ تم یہی کہو گی۔۔۔ جو تم کررہی ہو وہ ٹھیک نہیں ہے۔۔ میں بس اتنا کہوں گا۔۔۔ “
بہت اچھا ہوتا۔۔ جیسن سے بریک اپ کرکے ہی آتی۔۔ کم از کم اس ٹینشن سے تو نجات ملتی۔۔۔ پتا نہیں لوگ فضول دکھاوا کیوں کرتے ہیں۔۔۔ حقیقت یہی کہ کسی کو کسی کے حال سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ لوگ بس تماشہ دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔۔۔ میں بار بار ٹائم دیکھ رہی تھی۔۔۔ آدھا گھنٹہ گزر جانے کے بعد ملازمہ دوبارہ اندر آئی۔۔۔
“مہمان چلے گئے ہیں۔۔۔! آپ چاہیں تو باہر آسکتی ہیں۔۔۔ “
“نہیں۔۔۔میں یہیں ٹھیک ہوں۔۔ “
میں نے لاپروائی سے جواب دیا
“چائے لاؤں آپکے لیے۔۔۔؟ “
“نو۔۔۔!!”
میں نے غور سے لڑکی کا جائزہ لیا۔۔ اسکے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ مجھے سے بات کرنا چاہتی ہے۔۔۔
“حمدان کب آتا ہے۔۔۔ ؟”
“حمدان صاحب ۔۔۔! کبھی آتے ہیں کبھی نہیں۔۔ لیکن فاخرہ باجی نے انھیں فون کردیا ہے۔۔ شائد آنے والے ہوں گے۔۔۔ “
فاخرہ تائی کا نام ہے۔۔
“ٹھیک ہے تم۔۔ جاؤ۔۔۔ “
وہ دروازے کی طرف پلٹی۔۔
“سنو۔۔۔! بلیک کوفی لے آؤ ۔۔۔ “
وہ سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئی۔۔۔
میں سوچ رہی تھی کہ مہمان چلے گئے ہیں ۔۔شائد حمدان کی ماما آئیں ملنے کے لیے۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔۔ میں نے بھی شکر ادا کیا۔۔۔ نہ ہی آئیں تو اچھا ہے۔۔۔ وکیل نے پھنسا دیا مجھے۔۔ ورنہ میں تو کبھی شکل نہ دیکھتی کسی کی۔۔۔
ملازمہ کوفی لے آئی
“تم کب سے کام کررہی ہو یہاں۔۔۔ ؟”
میں نے اس سے سوال کیا
“میں یہاں تین سال سے ہوں ۔۔۔۔ پہلے میرے بابا ڈرائیور تھے یہاں۔۔ ملازمہ کی ضرورت تھی تو بابا نے مجھے بلا لیا گاؤں سے۔۔ “
وہ تفصیل بتانے لگی۔۔۔ اتنے میں گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔۔۔
“حمدان صاحب آگئے ہیں۔۔۔”
یہ کہتے ہی وہ باہر چلی گئی۔۔۔ اتنے انتظار کے بعد اب جب وہ پہنچ گیا تھا۔۔ میں نے گہری سانس لی۔۔۔ تائی سے زیادہ مشکل مرحلہ تو اب تھا۔۔۔ میں نے دنیا میں شائد ہی کسی انسان سے اتنی نفرت کی ہو۔۔ جتنی میں حمدان سے کرتی تھی۔۔ اور آج قسمت اس موڑ پہ لے آئی کہ مجھے اس سے ملنے کے لیے اتنی خواری برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔۔۔ میرا انداز ہ تھا کہ وہ امیرزادوں کی طرح پہلے اپنے بیڈ روم میں جائے گا ۔۔ فریش ہوگا۔۔ اسکے بعد آکے ملے گا ۔۔ ظاہر۔۔ اکڑ تو دکھانی ہے اس نے۔۔۔ اتنی بڑی جائیداد کا اکلوتا مالک جو بنا بیٹھا ہے۔۔۔ میں حسب معمول کڑھتی رہی۔۔ چند ہی منٹوں میں ملازمہ واپس لوٹی
“حمدان بھائی آگئے ہیں۔۔ آپ لاؤنج میں آجائیں۔۔ “