5
“اسے یہاں آنے میں کیا تکلیف ہے۔۔۔ “
میرے اندر کالاوا زبان سے پھوٹنے لگا۔۔ ظاہر ہے ملازمہ کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔ میں چاہتی تھی۔۔ انٹرنس کے پاس بنے اسی ڈرائنگ روم میں وہ مجھ سے مل لے اور میں یہیں سے چپ چاپ واپس چلی جاؤں۔۔۔ لاؤنج تک جانے کا مطلب تھا کہ میں ماضی کی کھائی میں مزید پھسلتی جاؤں۔۔۔ اس گھر کے کونے کونے سے وحشت ہورہی تھی۔۔
ملازمہ میرے جواب کے انتظار میں کھڑی تھی۔۔
“تم چلو۔۔! میں آتی ہوں۔۔۔ “
میں نے اپنے گرم دماغ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔۔ میں جانتی تھی۔۔ جس پوزیشن میں میں ہوں۔۔ اس میں حمدان سے نفرت مجھے فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔۔۔ مجھے کسی طرح یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا۔۔۔ میں نے خود کو ریلیکس کیا۔۔۔ اور لاؤنج کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
گھر کا انٹیرئیر مکمل طور پر بدل چکا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظریں ہر ذرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔۔ میں لاؤنج کی طرف مڑی تو فرنٹ وال پہ لگی تصویر نے مجھے چونکا دیا۔۔۔ میں تب 7،8 سال کی تھی ۔۔ بابا کے ایک پرانے دوست انکل مائیک انگلینڈ سے آئے تھے۔۔ وہ پروفیشنل فوٹو گرافر تھے۔ کافی دن ہمارے ساتھ رہے ۔۔ ایک دن نہ جانے انھیں کیا سوجھی وہ بابا سے ضد لگا کے بیٹھ گئے کہ وہ میری اور بابا کی تصویر لینا چاہتے ہیں۔۔ لیکن یہ تصویر عام تصویروں جیسی نہیں تھی۔۔ انھوں نے بابا کو مجبور کیا کہ وہ خود ایک بادشاہ کا روپ دھار لیں اور مجھے شہزادی کے روپ میں ان کے ساتھ بیٹھنا تھا۔۔ ایک ہفتہ تو تیاریوں میں لگ گیا ۔۔ شہر کے معروف میک اپ آرٹسٹ اور کاسٹیوم ڈیزائنر کو بلایا گیا۔۔۔ بابا تو اس سب سے کترا رہے تھے۔۔ لیکن انکل مائیک اور میں بہت پرجوش تھے۔۔ میں ہر روز سکول میں جا کے طرح طرح کے قصے سناتی۔۔ میری سہیلیاں رشک کرتیں۔۔ اور میں اپنے آپ کو دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی سمجھنے لگتی۔۔ سچ کہوں تو ان دنوں میں اپنے آپکو سچ مچ کی شہزادی سمجھ رہی تھی۔۔۔ اتنے دنوں کی کڑی محنت کے بعد شہانہ سیٹ لگایا گیا۔۔ تخت سجا۔۔ جس پہ بابا کسی عظیم بادشاہ کے مانند براجمان تھے۔۔ اور ان کے ساتھ جان سے پیاری شہزادی۔۔ ۔۔۔ تصویر تیار ہو جانے کے بعد انکل مائیک نے اسےدیوار پہ لگانے کی ضد کی لیکن بابا نہیں مانے۔۔۔ انکل مائیک چلے گئے۔۔ اور تصویر سٹور روم کے ایک کونے کی نظر ہوگئی۔۔ اور سالوں تک وہیں قید رہی۔۔ شائد میری زندگی کی وہ آخری خوشی تھی۔۔ اسکے بعد آہستہ آہستہ حالات بدلنا شروع ہوگئے۔۔۔
اچھے وقت کی آخری نشانی۔۔ مجھے میرے بچپن میں گھسیٹ کے لے گئی۔۔۔ مجھے حیرت ضرور ہوئی کہ یہ تصویر آویزاں کرنے کا خیال کسے اور کیوں آیا۔۔۔ قدموں کی آہٹ نے مجھے چونکایا۔۔ میں مڑی تو سامنے حمدان کھڑا تھا۔۔۔
گندمی رنگت۔۔ گھنگریالے بال۔۔ اور نظر کا چشمہ۔۔۔ پہلی بار میں نے حمدان کو دیکھا تو وہ سر جھکائے۔۔ کوریڈور کے بیچوں بیچ کلائی پہ باندھی ہوئی گھڑی کو چھیڑنے میں مصروف تھا۔۔۔
“بابا۔۔۔۔! یہ لڑکا کون ہے۔۔ ہمارے گھر میں کیا کررہا ہے ۔۔؟؟”
بابا ہاتھ تھامے مجھے اپنے بیڈ روم میں کسی سے ملانے لے جارہے تھے۔۔۔ وہ میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے مسکرا دیے۔۔۔
آج وہی لڑکا۔۔ ایک بہت بڑے بزنس مین کے گیٹ اپ میں میرے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ بلیک تھری پیس۔۔ گھنگریالے بال جن کا سائز اب کم ہوچکا تھا۔۔ اور وہی نظر کا چشمہ۔۔۔
جس طرح میں نے سر سے پاؤں تک اسکا جائزہ لیا تھا۔۔ یقیناً وہ بھی چور نظروں سے یہی کررہا تھا۔۔۔ چند لمحے ہم یونہی بنا کچھ بولے کھڑے رہے۔۔ ظاہر ہے ہمارا رشتہ ایسا نہیں تھا جو ایکدوسرے کا حال چال پوچھتے۔۔۔ خیر خبر لیتے۔۔۔ اس لمحے میرے لیے وہ سب سے بڑا دشمن تھا۔۔ میں اسکے لیے کیا تھی۔۔ اسکا اندازہ لگانا فلحال مشکل تھا۔۔۔
“آپ نے بلایا تھا۔۔۔؟”
مؤدبانہ انداز میں اس نے خاموشی توڑی۔۔
حیران کن طور پر میں اس انتظار میں تھی کے وہ مجھے بیٹھنے کا کہے گا ۔۔۔ وقت کی ستم ظریفی تھی۔۔۔ میں اپنے ہی گھر میں مہمان بن کے کھڑی تھی۔۔۔ اور وہ میزبان ہونے کے تقاضے پورے کرنے سے گریزاں تھا۔۔۔
“حمدان صاحب۔۔۔۔! کاش حقیقت میں آپ اتنے ہی معصوم ہوتے جیسا دکھاوا کررہے ہیں۔۔۔ “
میں دل ہی دل میں بولی۔۔۔
“باری صاحب سے بات ہوئی۔۔۔ ؟”
میں نے وکیل کے بارے میں سوال کیا۔۔۔ اور آگے بڑھ کے صوفہ پہ بیٹھ گئی۔۔ اس نے بھی سامنے والی سیٹ پکڑ لی۔۔
“باری صاحب نے گھنٹہ پہلے فون کیا تھا کہ وہ گھر آرہے ہیں۔۔۔ “
اس جواب کے بعد پھر سے دونوں کے بیچ گہری خاموشی چھا گئی۔۔۔
ملازمہ حمدان کے لیے پانی لے آئی۔۔
“میڈم سے تعارف ہوا تمہارا۔۔ ؟”
حمدان ملازمہ سے پوچھنے لگا
“تعارف تو نہیں ہوا۔۔۔ لیکن مجھے پتا ہے یہ کون ہیں۔۔۔ بڑے صاحب کی بیٹی ۔۔ تانیہ بی بی۔۔۔ “
وہ مسکرا کے میری طرف دیکھنے لگی۔۔ حمدان نے سر ہلایا
“ان کے کھانے اور رہنے کا جو بھی ہے۔۔ وہ ان سے پوچھ لو۔۔۔ باقی ملازمین کو بھی میڈم کے بارے میں بتا دو۔۔۔ کسی چیز کی کمی ہوتو مجھے فون کرنا۔۔۔ اور ہاں۔۔ طارق سے کہہ کے سب سے پہلے روم کی صفائی کراؤ۔۔۔ “
“بڑے صاحب والا روم صاف کرنا ہے یا۔۔۔۔ ؟”
ملازمہ سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔۔۔
“میں یہاں رکنے نہیں آئی ہوں۔۔۔ باری صاحب سے مل کے ہوٹل چلی جاؤں گی۔۔ کسی کو تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ “
میں نے روکھے انداز میں جواب دیا
“ہوٹل۔۔۔!!”
حمدان جو اب تک نظریں ملا کے بات نہیں کررہا ہے تھا حیرت سے دیکھنے لگا۔۔۔ ساتھ ہی اس نے ملازمہ کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا
“جی۔۔۔! میں ہوٹل میں ٹھہری ہوں۔۔۔ کسی اور کو تو ضرورت محسوس نہیں ہوئی پرباری صاحب نے ای میل پہ بابا کے بارے میں بتایا۔۔ اور وصیت کے حوالے سے ملنا چاہتے تھے۔۔ اسی لیے مجھے آنا پڑا۔۔۔۔ اس گھر کے رہائیشیوں کو مجھ سے خوفزدہ ونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ “
“اوہ۔۔۔!! تو وصیت کے سلسلے میں آنا پڑا آپکو۔۔۔ “
اسکا لہجا ایک دم سے تلخ ہوگیا۔۔
“آف کورس۔۔۔۔! خاور الیاس کی سگی اولاد صرف ایک ہی ہے۔۔ اس دنیا میں۔۔ باقی لوگ خود کو جو مرضی سمجھ لیں۔۔ یہ حق مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔۔۔ “
“کمال ہے۔۔۔۔ آپ حق کی بات کررہی ہیں۔۔ “
اس نے گہری سانس لی
“حمدان۔۔۔! میں یہاں لڑائی جھگڑا کرنے نہیں آئی۔۔ مجھے تم سے اور جائیداد سے کچھ نہیں چاہیے۔۔ بس میں جہاں رہ رہی ہوں جیسے رہ رہی رہی ہوں ۔۔ مجھے وہیں سکون سے رہنے دو۔۔۔ “
میری دو ٹوک بات کے جواب میں اس نے اپنا چشمہ اتارا۔۔۔ میرے چہرے پہ عجیب سی نظر ڈالی۔۔۔ افسردگی سے سر ہلا یا۔۔۔ اس کے انداز نے میرے اندر آگ لگا دی۔۔