6
“میڈم۔۔۔!! خاور صاحب کی موت کی خبر کس طرح آپ تک پہنچائی جاتی۔۔ ؟؟ آخری اطلاعات کی بنا پہ صرف یہ پتا تھا کہ سکاٹ لینڈ میں ہیں۔۔ میں نے کوشش کی آپکو ڈھونڈنے کی۔۔۔ لیکن بے سود ۔۔۔ افسوس تو یہ ہے۔۔ کہ خاور صاحب کے پاس بھی کوئی رابطہ نمبر نہیں تھا۔۔۔ میں باری صاحب کا مشکور ہوں۔۔ جنھوں نے آپ کو ای میل کی۔۔۔ تدفین کے بعد مجھے بھی یہ خیال آیا تھا۔۔ لیکن میں نے کوشش نہیں کی۔۔ کرتا بھی کیوں۔۔۔ جن کو بیٹی سے ملنے کی حسرت تھی وہ تو آنکھیں بند کرچکے تھے۔۔”
اسکی آنکھوں میں اترتی نمی۔۔ اور بھاری آواز ۔۔ سب دھوکہ لگ رہا تھا۔۔
“میرے سامنے۔۔ اس طرح کا دکھاوا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میرے بابا کو تم نے اور تمہاری ماں نے سالوں پہلے چھین لیا تھا۔۔۔ میں درد بدر کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہوئی تو اسکی وجہ صرف تم ہو۔۔۔۔ صرف تم۔۔۔۔ بابا کی قبر تو میرے دل میں اس دن کھد چکی تھی۔۔ جس دن میں یہ گھر چھوڑ کے گئی۔۔۔ میرے لیے وہ سالوں پہلے ہی م۔۔۔۔۔ “
“میں سمجھ رہا تھا کہ وقت کے ساتھ شائد تمہارے اندر کا زہر بھی مر گیا ہو۔۔ لیکن نہیں تم آج بھی وہی تانیہ ہو۔۔۔ “
“میرے اس زہر کے موجب تم لوگ ہو۔۔۔ بابا چلے گئے دنیا سے۔۔ اب رہو اس گھر میں۔۔ جس طرح دل کرے عیاشی کرو۔۔ کوئی روکنے والا نہیں ہے ۔۔ کہاں ہیں تمہاری ماما۔۔۔ ؟ خوش تو بہت ہوں گی۔۔ ان کا خوا ب پورا ہوگیا ہے۔۔ جس مقصد سے وہ اس گھر میں آئیں تھیں وہ بلآخر پورا ہوگیا۔۔۔ وہ اس گھر کی مہارانی بن گئیں۔۔ اور انکا بیٹا کمپنی کا مالک۔۔۔ واہ۔۔۔ خوب کھیل کھیلا۔۔۔۔ خدا معاف نہیں کرے گا تم لوگوں کو۔۔ “
“تمہیں جو کہنا ہے مجھے کہو۔۔۔ اپنے اندر کے اس لاوے سے جلا کے راکھ کردو۔۔ لیکن میری ماں کے بارے میں کچھ مت کہنا۔۔ “
اس نے تنبیہ کی۔۔
“کیوں نہ کہوں۔۔۔ میرے اس حال کی ذمہ دار وہی ہیں۔۔۔ میں کبھی معاف نہیں کروں گی ان کو۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔ کبھی خوش۔۔۔۔”
شدید غصے سے میری آواز لرز رہی تھی۔۔
“میری ماں مر چکی ہے۔۔۔۔ تین سال ہوگئے ہیں۔۔ نہیں ہیں وہ اس دنیا میں۔۔ بخش دو اب۔۔۔۔ “
اس نے دھاڑتے ہوئے صوفہ چھوڑا۔۔۔ اور ایک کونے میں منہ پھیر کے کھڑا ہوگیا
میرے اندر کے دہکتے انگاروں پہ جیسے کسی نے ٹھنڈا پانی ڈال دیا۔۔ ایسا نہیں کہ اس خبر سے مجھے خوشی ہوئی تھی۔۔۔ لیکن سمجھ بھی نہیں آرہا تھا کہ کیا ردعمل دوں۔۔ میں بس خاموش ہوگئی۔۔۔
اسکی پشت میری جانب تھی۔۔۔ لیکن پھر بھی اسکی سسکیاں میں صاف سن سکتی تھی۔۔۔
ایک ملازم باہر سے اندر آیا۔۔۔
“باری صاحب آئے ہیں۔۔۔ ڈارئنگ روم میں بٹھا دیا ہے”
حمدان نے چپکے سے آنسو پونچھے اور چشمہ لگا لیا۔۔۔
“ٹھیک ہے۔۔۔! رخسانہ سے کہو ان کے لیے چائے پانی کا انتظام کرے۔۔۔ “
وکیل کا سنتے ہی میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ تاکہ جلدی سے یہ کام نپٹا کے یہاں سے بھاگ سکوں۔۔
“تانیہ۔۔۔! “
حمدان کی آواز پہ میں رکی
“مجھے تمہارے بابا کی جائیداد سے کچھ نہیں چاہیے۔۔ میں ان کے جیتے جی انھیں بھی بتا چکا ہوں۔۔ ماما کے گزر جانے کے بعد میں بھی یہاں سے چلا گیا تھا۔۔ خاور صاحب نے مجھے روکنے کی کوشش کی لیکن میرا دل اور ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے۔۔ میں یہاں تھا تو صرف اپنی ماں کی وجہ سے۔۔۔ یہاں سے جانے کے بعد میں نے کچھ مہینے کہیں نوکری کی۔۔ خاور صاحب بیمار رہنے لگے تھے۔۔ اس لیے انھوں نے مجھے واپس بلایا۔۔ بہت اکیلے پڑ گئے تھے۔۔۔ مجھے ترس آتا تھا ان پہ۔۔ ان کے اسرار پہ میں نے ان کی کمپنی جوائن کی۔۔۔ آخری چند ماہ میں وہ بہت لاغر ہوگئے تھے۔۔۔ آفس نہیں جاسکتے تھے۔۔۔ اس لیے چار و ناچار ساری ذمہ داری مجھے اپنے سر پہ لینی پڑی۔۔۔ کمپنی کا سی ای او بھی انھوں نے اپنی مرضی سے بنایا۔۔۔ مرنے سے چند روز پہلے انھوں نے اپنی تمام جائیداد کا امین مقرر کیا۔۔۔ مجھے نہیں پتا کہ انھوں نے اپنی وصیت میں کیا لکھا ہے۔۔ کیا نہیں۔۔ لیکن یہ سب تمہارا ہے۔۔ میری حیثیت ایک رکھوالی کرنے والے کتے سے بڑھ کےکچھ نہیں ہے۔۔ میں بس تب تک اس کی رکھوالی کروں گا جب تک تم خود یہ سب نہیں سنبھال لیتیں۔۔۔ میری طرف سے بے فکر رہو۔۔۔ “
آنسو لگاتار جاری تھے۔۔
کیا وہ سچ مچ اتنا ہی ٹوٹا ہوا ہے یا پھر محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کا طریقہ ہے۔۔۔ دل اسکی ہر بات ماننے کو تیار تھا لیکن دماغ کو دھوکہ ہی دھوکہ نظر آرہا تھا۔۔۔
میں اسکی بات کا جواب دیے بنا ہی ڈرائنگ روم کی طرف چل پڑی
باری صاحب فائلیں ٹیبل پہ رکھے سوچوں میں ڈوبے تھے۔۔۔ میں اندر داخل ہوئی تو انھوں نے کھڑے ہوکے استقبال کیا۔۔۔۔
“معاف کیجئے گا مجھے آنے میں دیر ہوگئی۔۔۔ “
“اٹس اوکے۔۔۔! آپ بیٹھیں پلیز۔۔”
میں نے اشارہ کیا
“حمدان صاحب۔۔۔۔”
وہ دروازے کی طرف دیکھنے گے
“وہ بھی آرہے ہیں۔۔ “
ملازمہ چائے لے آئی۔۔۔
“خاور صاحب۔۔۔۔! گریٹ آدمی تھی۔۔ میں نے ان جیسے لوگ کم ہی دیکھے ہیں اس دنیا میں۔۔۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند کرے۔۔ “
حسب معمول۔۔۔۔ ایسی باتیں میرے اوپر بے اثر تھیں۔۔ اس لیے میں نے کوئی جواب بھی نہیں دیا۔۔۔ اتنے میں حمدان اندر داخل ہوا۔۔ باری صاحب اس سے ملے۔۔۔ تھوڑی دیر تک کاروباری معاملات کے بارے میں گفتگو ہوئی۔۔۔
“تانیہ بی بی نے آپکو بتا ہی دیا ہوگا۔۔ خاور الیاس صاحب کی وصیت کے سلسلے میں حاضر ہوا ہوں۔۔۔ “
وہ حمدان کو بتانے لگے۔۔۔
“جی مجھے پتا چلا ہے۔۔۔ بہتر یہی ہوتا کہ آپ تانیہ سے خود ہی اس بارے میں بات کرلیتے۔۔ میرا ہونا ضروری تو نہیں تھا۔۔۔ “
“آپکا ہونا بے حد ضرور ی ہے۔۔ مرحوم نے بڑی اہم ذمہ داریاں سونپی ہیں آپکو۔۔۔ جن کا وصیت میں ذکر ہے۔۔ اور کچھ کمپنی شئیرز بھی آپکے نام کیے ہیں۔۔۔ “
وہ سامنے رکھی فائلوں کو اوپر نیچے کرتے ہوئے بولے۔۔
“شئیرز۔۔۔۔۔! شئیرز کے حوالے سے تو خاور صاحب سے میری کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔۔”
حمدان انجان بننے لگا۔۔۔
“جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ ڈرامہ ہے سب۔۔۔ ان کے ہوتے ہوئے ہی سب اپنے نام کرا چکا ہوگا۔۔۔ بس مجھے دکھانے کے لیے یہ۔۔۔۔ “
نفرت اور غصے کی آگ جو ذرا سی ٹھنڈی ہوئی تھی پھر سے بھڑک گئی۔۔۔
“دراصل۔۔۔ کمپنی کے دس فیصد شئیرز آپکے نام کرنے کی وصیت ہے۔۔۔ تانیہ بی بی ساٹھ فیصد شئیرز کی حقدار ہیں اور باقی تیس فیصد انھوں نے اپنی ایک اور اولاد کے نام کیے ہیں۔۔”
“واٹ۔۔۔۔! ایک اور اولاد۔۔۔۔ “
مجھے جھٹکا سا لگا۔۔۔
“جی۔۔۔! تانیہ بی بی۔۔۔ جب آپ سے میری فون پہ بات ہوئی تھی تب میں یہ واضح نہیں کر سکا۔۔۔ لیکن اب بتانا چاہتا ہوں کہ آپ مرحوم کی اکلوتی اولاد نہیں ہیں۔۔ ان کی ایک اور بیٹی بھی ہے۔۔”
“ایک اور بیٹی۔۔۔؟؟”
میں حیرت سے حمدان کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
“بابا نے ایک اور شادی بھی کی تھی۔۔۔ یا۔۔۔ ؟؟”