7
اسکے چہرے کے تاثرات تو یہی بتا رہے تھے کہ وہ بھی اس خبر سے لاعلم ہے۔
“آپ جانتے ہیں خاور صاحب کی دوسری بیٹی کو۔۔۔۔ ؟ آئی مین۔۔ انھوں نے مزید کچھ بتایا تھا اس بارے میں۔۔۔ “
“یہ وصیت مرحوم خاور الیاس صاحب نے وفات سے دو ہفتے پہلے تیار کرائی تھی۔۔ جس وقت انھوں نے دوسری بیٹی کا ذکر کیا ۔۔ مجھے بھی حیرانی ہوئی۔۔ سب سے پہلے میرے دماغ میں بھی یہی سوال اٹھا کے شائد انھوں نے ایک اور شادی کی ہوئی ہے ۔۔۔ وصیت کے کاغذات میں دوسری بیٹی کا نام درج کرنا ضروری تھا۔۔ لیکن انھوں نے نام کی جگہ خالی چھوڑنے کا کہہ دیا۔۔۔ یہ آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔ ۔۔ “
انھوں نے فائل حمدان کی طرف بڑھائی۔۔
” باری صاحب۔۔ جب نام ہی نہیں پتا تو وصیت پہ عمل درآمد کیسے ہوگا۔۔ ؟؟ میری تو سمجھ سے باہر ہے یہ چیز۔۔”
میں اپنی جگہ ہکا بکا تھی۔۔ لیکن حمدان پہیلی کو سلجھانے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔
“میں نے بھی ان سے یہی سوال کیا تھا کہ وصیت کو ایسے بے نام نہیں چھوڑا جا سکتا۔۔۔ انھوں نے مجھے بس یہ بتایا کہ وہ تانیہ بی بی کو اس بارے میں مطلع کرچکے ہیں۔۔ “
“واٹ۔۔۔! میری تو بابا سے اتنے سالوں بات ہی نہیں ہوئی۔ ۔۔ اور اگر پہلے بات ہوتی بھی تھی تو کبھی انھوں نے اپنی شادی کا یا کسی اور بیٹی کا ذکر نہیں کیا۔۔۔ یہ قصہ میرے اوپر سے گزر رہا ہے۔۔۔۔ “
مجھ پہ حیرت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا۔۔۔
“خاور صاحب نے بیٹی یا بیوی کوئی پتا دیا ہوگا۔۔ کوئی تفصیل تو ہوگی آپکے پاس۔۔۔ “
“حمدان صاحب۔۔۔! خاور صاحب کی دوسری بیٹی تانیہ بی بی کی سگی بہن ہیں۔۔ اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہیتی ہیں۔۔۔ بتا رہے تھے کہ وہ کافی سالوں سے ان لوگوں سے نہیں ملے۔۔ انھیں اپنی بیٹی کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔۔ “
“اٹس بل شٹ۔۔۔۔۔!!!!”
مجھ سے مزید یہ ڈرامہ برداشت نہیں ہوا۔۔ میں پاؤں پٹختی ہوئی باہر چلی گئی۔۔۔
لاؤنج میں آتے ہی میں نے سگریٹ سلگائی۔۔۔ میرے دماغ میں انگارے جل رہے تھے۔۔۔ لاؤنج کی گلاس وال کے پاس کھڑے ہوکے میری نگاہیں وسیع باغیچے پہ تھیں۔۔۔ ایک طرف تو مجھے لگ رہا تھا کہ وکیل کی اس کہانی کے پیچھے حمدان کا ہاتھ ہے۔۔ وہیں دوسری طرف میں دماغ پہ زور دے رہی تھی کہ شائد بابا نے ایسی کوئی بات کی ہو۔۔ اور میں نے دھیان نہ دیا ہو۔۔۔۔ لیکن مفلوج دماغ کچھ بھی یاد کرنے سے قاصر تھا۔۔۔ حمدان کے قدموں کی آہٹ پہ میں اسکی طرف مڑ گئی۔۔۔
“حمدان۔۔۔! اس سب کےپیچھے تم ہو ناں۔۔۔۔ “
“مجھے یہ ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔ ؟ مجھے یہ سب چاہیے ہوتا تو سیدھا سیدھا اپنے نام کراتا۔۔۔ ایک اور کردار بیچ میں ڈال کے مجھے کیا فائدہ ملنا ہے۔۔۔ “
اس نے صفائی پیش کی۔۔
“تم بہت ہی شاطر آدمی ہو۔۔۔۔ ظاہر ہے خود سامنے آؤ گے تو لوگ سوال کریں گے۔۔۔ کسی طرح تو کوّر کرنا پڑے گا تمہیں۔۔۔ اتنی آسانی سے تو اربوں کی دولت کوئی ہڑپنے نہیں دے گا۔۔۔ “
“چلو مان لیتے ہیں۔۔ اس سب کے پیچھے میں ہوں۔۔۔ لیکن مجھے ایک بات بتاؤ۔۔ مجھے یہ سب لوٹنا ہی تھا تو پچاس فیصد شئیر تمہارے نام کیوں چھوڑتا۔۔۔۔ اتنے سالوں سے نہ تو کسی کو تمہارے زندہ ہونے کا علم تھا اور نہ مرنے کا۔۔۔ تمہارے سگے باپ کو پتا نہیں تھا کہ تم کہاں ہو کہاں نہیں ہو۔۔۔ تمہیں مردہ ثابت کرکے سب کچھ اپنے نام کرا لینا میرے لیے کوئی بڑی بات نہیں تھی۔۔۔۔”
اسکی بات میں دم تھا۔۔۔ لیکن میرے پاس اس پہ شک کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔۔۔
“اگر تم سچے ہوتو پھر باری صاحب کی کہانی کو سچ کیسے مانیں۔۔۔ ؟ میرے علم میں نہیں ہے کہ میری کوئی دوسری بہن بھی ہے اس دنیا میں۔۔ ارے بہن تو کیا۔۔ مجھے تو ماں کا نہیں پتا۔۔۔ بچپن سے یہی سنا تھا کہ جب میں دوس سال کی تھی تو وہ فوت ہوگئیں۔۔”
“وہ فوت نہیں ہوئی تھیں۔۔ خاور صاحب کی علیحدگی ہوگئی تھی ان سے۔۔۔ “
حمدان نے ایک اور انکشاف کیا
“ہیں۔۔۔! اور یہ تمہیں کس نے بتایا۔۔۔۔ ؟”
“بس مجھے پتا ہے۔۔۔ “
“اب تم مجھے خود پہ شک کرنے پہ مجبور کررہے ہو۔۔۔ “
میں چڑ گئی
“دیکھو تانیہ۔۔۔! تمہیں موت کا اس لیے بتایا گیا تاکہ تم ملنے ضد نہ کرو۔۔۔ لیکن ماما کے ذریعے مجھے اس بات کا پتا چلا تھا کہ خاور صاحب نے تمہاری ماما کو طلاق دی تھی۔۔۔ لیکن دوسری بیٹی والا قصہ مجھے نہیں پتا ۔۔۔ میں نے خاور صاحب کے ساتھ بہت وقت گزارا ہے۔۔۔ میرے سامنے کبھی انھوں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔ “
“مجھے واپس چلے جانا چاہیے۔۔۔۔ “
میں مایوس ہوگئی
“باری صاحب بیٹھے ہیں۔۔ ان سے بات کرلیتے ہیں۔۔ ہو سکتا ہے کوئی حل نکل آئے۔۔۔ “
حمدان کےکہنے پہ ہم دونوں پھر سے باری صاحب کے پاس آگئے ۔۔۔
“باری صاحب۔۔!اب کیا کیا جائے۔۔ ہم دونوں تو اس چیز سے لاعلم ہیں۔۔۔ “
“حمدان صاحب۔۔۔! ابھی تو میں نے صرف کمپنی کے شئیرز کا بتایا ہے۔۔ اس وصیت میں ان کی باقی جائیداد کی تقسیم کا بھی ذکر ہے۔۔۔ لیکن وصیت پہ عملدرامد تبھی ہوسکتا ہے۔۔ جب تمام فریق موجود ہوں۔۔۔ میرے حساب سے آپ مرحوم کی دوسری بیٹی کو ڈھونڈیں۔۔۔ پتا کریں ان کا۔۔۔ یہی اسکا حل ہے۔۔ ورنہ میں تو کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔ “
“کہاں سے ڈھونڈیں۔۔۔ ؟؟ ہمارے پاس کوئی سراغ نہیں ہے۔۔۔ “
میں نے ہاتھ کھڑے کیے
“تانیہ بی بی۔۔۔! آپ اپنے ننھیال میں کسی کو نہیں جانتیں۔۔ ؟ کوئی اتا پتہ۔۔۔۔۔ “
“نو۔۔۔ نتھنگ۔۔۔۔۔”
“ٹھیک ہے پھر۔۔۔ آپ لوگ انھیں ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔۔ اور میں۔۔۔ کوئی اور حل تلاش کرتا ہوں۔۔۔ وصیت کی ایک کاپی میں آپ لوگوں کے لیے چھوڑ کے جارہا ہوں۔۔۔ اسے بھی تسلی سے پڑھ لیجئے گا۔۔۔ کچھ دن تک دوبارہ ملاوات ہوتی ہے۔ اگر اس سے پہلے آپ کو کوئی سراغ ملے تو مجھے فون کردیجئے گا۔۔۔ “
باری صاحب مجھے اس نئی مصیبت میں ڈال کے چلے گئے۔۔۔۔ حمدان بھی سر پکڑ کے بیٹھا تھا۔۔۔
“حمدان۔۔۔! میں دوبارہ تم سے پوچھ رہی ہوں۔۔ اگر تم اس سب کے پیچھے ہوتو بتا دو۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔ مجھے کمپنی شئیرز بھی نہیں چاہیں۔۔ بس میں چاہتی ہوں۔۔ میں جہاں رہو ں سکون سے رہوں۔۔ جس طرح پہلے میرے اکاؤنٹ میں رقم آتی رہیتی تھی۔۔ ویسے آتی رہے۔۔ مجھے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ “
“جس طرح تم راہِ فرار ڈھونڈ رہی ہو۔۔ میں بھی یہ سب یہیں چھوڑ کے بھاگ جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔ میں نے کلئر کٹ بتا دیا ہے میرا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔۔ اب تمہیں جو کرنا ہے کرو۔۔۔ واپس جانا چاہتی ہو۔۔ چلی جاؤ۔۔۔ لیکن اس وصیت کو سننے کے بعد میں اپنے اوپر کوئی بوجھ نہیں ڈالوں گا۔۔۔ یہ سب تمہاری ذمہ داری ہے۔۔ تم جانو اور تمہارے بابا کی دولت جائیداد ۔۔۔ مجھے معاف کردو۔۔۔۔ میں نے خاور صاحب سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے بعد اس کمپنی کی ذمہ داری سنبھالوں گا۔۔۔ اور جب تک ممکن ہوا۔۔ میں اپنا فرض پورا کرتا رہوں گا۔۔۔۔”
وہ چلا گیا۔۔
“بابا۔۔۔۔! کس مصیبت میں ڈال گئے ہیں آپ مجھے۔۔۔۔۔ “
میں گلہ پھاڑ کے چلائی۔۔۔
کچھ دیر میں وہیں بیٹھی رہی۔۔
“یہاں رکنا بے سود ہے۔۔ “
میں نے برلن واپس کا جانے کا ارادہ کرلیا۔۔۔ ہینڈ بیگ لینے کے لیے میں لاؤنج میں آئی تو ۔۔ حمدان ملازمہ سے کچھ بات کررہا تھا۔۔ میں نے اسے نظرانداز کرتے ہوئے صوفے پہ پڑا بیگ اٹھایا اور ہوٹل واپسی کا رستہ پکڑا۔۔