8

“تانیہ۔۔۔!!”

میں بنا مڑے اسکی آواز پہ رکی

“تم یہاں رہ سکتی ہو۔۔۔۔ “

“اوہ۔۔! تو تم مجھے اپنے گھر رہنے کی اجازت دے رہے ہو۔۔ “

“ہر بات نیگٹوو لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔  یہ گھر تمہارا ہے۔۔۔ ہوٹل رہنا مناسب نہیں ہے۔۔ ۔۔ “

“تم سے ملاقات میری مجبوری تھی۔۔۔ اس لیے دل پہ پتھر رکھ کے یہاں چلی آئی۔۔۔ لیکن تمہارے ساتھ ایک چھت تلے رہنا   ناممکن ہے۔۔۔ اور ویسے بھی میں واپس جارہی ہوں۔۔۔ سنبھال  کے رکھو یہ سب۔۔۔ “

“میڈم۔۔۔!! آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں۔۔ اپنی ماں کی وفات کے بعد میں نے یہ گھر چھوڑ دیا تھا۔۔۔ خاور صاحب کے  اسرار پہ میں صرف ان کی کمپنی  دیکھ رہا ہوں۔۔  اس گھر میں خاور صاحب کے بعد کوئی بھی رہائش پزیر نہیں ہے۔۔ ہاں چند ایک ملازم ہیں۔۔ گھر کی دیکھ بھال کے لیے۔۔۔ اور میں ہفتے میں ایک آدھ بار آتا ہوں۔۔  وہ بھی دیکھ بھال کی غرض سے۔۔۔  تمہاری اپنی مرضی ہے۔۔ ہوٹل میں رہو یا واپس چلی جاؤ۔۔۔ “

میں نے دھیان سے اسکی بات سنی۔۔۔ لیکن ارادہ نہیں بدلا۔۔۔   میں گھر کے گیٹ سے باہر نکلی تھی۔۔ ایک ملازم تیز تیز چلتا میرے قریب آیا۔۔۔

“بی بی  جی۔۔۔!!  آپ رکیں میں گاڑی لے آتا ہوں۔۔ حمدان صاحب نے بھیجا ہے۔۔۔ “

“نو تھینکس میں چلی جاؤں گی۔۔۔ “

میں روڈ پہ آگئی۔۔۔ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آیا

“آپ بڑے صاحب کی بیٹی ہیں۔۔۔ ایسے کیسے ٹیکسی پہ دھکے کھاتی رہیں گی۔۔ یہ سب آپکا  ہی تو ہے۔۔ میں بھی آپکا ملازم ہوں۔۔ خدارا ۔۔ رکیں میں گاڑی نکالتا ہوں ۔۔۔ “

اسکی  درخواست  نظرانداز کرتے ہوئے میں ٹیکسی کو رکنے کا اشارہ کیا۔۔

سر درد سے پھٹ رہا تھا۔۔ جاتے ہی بیڈ پہ اوندھی لیٹ گئی۔۔۔ جیسن نے رٹن ٹکٹ بک نہیں کرائی تھی۔۔ اس لیے واپسی کی ٹکٹ بک کرانی تھی۔۔۔ لیکن اس وقت میرا بالکل دل نہیں کررہا تھا کہ مزید کوئی خواری اٹھاؤں۔۔۔ میں نے جیسن کو کال کی۔۔۔

“پلیز واپسی کی ٹکٹ بک کردو۔۔ کل کی  فلائیٹ مل جائے تو  زیادہ بہتر ہے۔۔۔ “

“اوکے میں چیک کرتا ہوں۔۔ مسئلہ حل ہوگیا تمہارا۔۔۔ ؟”

اس نے سوال کیا

“نہیں جیسن۔۔۔۔! یہاں سب کچھ الٹا ہے۔۔ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔ میں واپس آرہی ہوں۔۔۔ “

اس بار میرا لہجہ قدرے نرم تھا۔۔۔ اسکی بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ  مجھ میں مزید لڑنے اور بحث کرنے کی ہمت باقی نہیں تھی۔۔

“اب اگر میں تفصیل پوچھوں گا تو تم غصہ ہوجاؤ گی۔۔۔۔ پھر بھی شئیر کرنا چاہو تو مجھے اچھا لگے گا۔۔۔ “
میں اٹھ کے بیٹھ گئی۔۔۔ پتا نہیں کیوں  میں اسے سب بتاتی چلی گئی۔۔۔  وصیت  سے متعلق نئے انکشافات سن کے وہ بھی حیران ہوا۔۔۔

“تو تمہیں بالکل آئیڈیا نہیں کہ تمہاری ماما  کہاں ہوں گی ۔۔ یا کہاں سے تھیں۔۔۔ ؟”

“نہیں۔۔ یہی تو مسئلہ ۔۔ میرا تو پورا بچپن اسی جھوٹ میں گزر ا کہ میری ماں مر چکی ہے۔۔۔ یہ تو حمدان  نے بتایا کہ بابا نے انھیں طلاق دے دی تھی۔۔۔۔ “

“دیکھو اگر ایسا ہے تو تم اپنے باقی رشتہ داروں سے ان کے متعلق پوچھ لو۔۔ کسی کو تو اندازہ ہوگا۔۔۔ “

“میں کسی کے منہ نہیں لگنا چاہتی۔۔ اور ویسے بھی جو لوگ اب تک جھوٹ بولتے رہے۔۔ اب کیسے سچ بتائیں گے۔۔۔ میں نے  یہاں آکے غلطی کی ہے۔۔۔ بس   میں واپس آرہی ہوں۔۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔ “

“تانیہ۔۔۔! میری مانو تو سب ایسے چھوڑ کے مت آؤ۔۔ جو بھی ہو تم اس سب کی حقدار ہو۔۔۔ “

“حقدار تو ہوں۔۔ لیکن کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں اس بہن کو جس کا کوئی نام پتا نہیں ہے۔۔۔ سوائے خواری کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔  بابا نے بھی کہہ دیا  کہ انھوں نے مجھے بتایا ہو ا تھا۔۔۔ حالانکہ کبھی میری ان سے کوئی بات ہوئی ہی نہیں اس بارے میں۔۔۔ اور آخری  دو تین سالوں میں تو مکمل کٹ آف تھا۔۔۔ “

“مجھے لگتا ہے تمہارے بابا۔۔ یہ راز اس لیے چھوڑ کے گئے ہیں تاکہ تم خود اسکی کھوج کرو۔۔۔ وہ تمہیں یہ ٹاسک دے گئے ہیں۔۔۔  اور ایسا بھی تو ہوسکتا ہے انھوں نے کوئی ہنٹ چھوڑا ہو۔۔ دماغ پہ زور دو۔۔ کچھ تو ایسا ضرور ہوگا جس سے تمہیں سراغ مل سکے۔۔۔ “

“مجھے اس دلدل میں پھنسے کا کوئی شوق نہیں ہے۔۔۔ میرا  دم گھٹ رہا ہے یہاں۔۔۔ “

“تو سب کچھ ایسے چھوڑ کے چلی آؤ گی۔۔۔  تم ایسا چاہتی ہو کہ حمدان سب ہتھیا لے اور تم  یہاں پیسے پیسے کی محتاج ہو۔۔۔ “

“پھر کیا کروں میں بتاؤ۔۔۔۔؟؟”

“وہیں رکو۔۔۔۔! کوئی نہ کوئی رستہ مل جائے گا۔۔۔ اگر حمدان جھوٹ بول رہا ہے تو ایک نہ ایک دن وہ بھی تمہارے سامنے آجائے گا۔۔۔ اور ویسے بھی تانیہ۔۔ جو زندگی تم یہاں جی رہی ہو۔۔ وہ زندگی ہے۔۔ ؟؟ چوبیس چوبیس گھنٹے نشے میں رہیتی ہو۔۔۔ “

“مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا جیسن۔۔۔۔ دماغ بند ہوچکا ہے۔۔ “

میں پھسر پھسر رونے لگی۔۔۔  ایک عرصے بعد  آنسوؤں کا بند ٹوٹا تھا۔۔۔

“ریلیکس تانیہ۔۔!! تم اپنی فیملی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرو۔۔ یہ دولت جائیداد گئی بھاڑ میں۔۔ ہوسکتا ہے تمہیں تمہاری ماں مل جائے۔۔۔  اس بڑی کوئی بات ہوسکتی ہے بھلا۔۔۔۔  اپنے بابا کے بعد تم دنیا میں اکیلی رہ گئی ہو۔۔۔  تمہیں کسی اپنے۔۔ کسی قریبی کی سخت ضرورت ہے۔۔۔ میں نے بہت کوشش کی تمہارا خیال رکھ سکوں۔۔ تمہاری زندگی میں سکون لا سکوں۔۔  میں ناکام رہا۔۔۔ پلیز۔۔ گیوو اپ مت کرو۔۔۔۔ تمہیں جینے کا ایک مقصد مل رہا ہے۔۔۔ اسے ایسے  مت گنواؤ “

جیسن کال پہ تسلیاں دیتا رہا اور میں دل کھول کے روئی۔۔۔ سالوں سے آنسوؤں کا  جو سمندر اپنے اندر دبایا ہوا تھا۔۔۔ آج طوفان کی صورت باہر نکلنے لگا ۔۔

“اندھیرا ہی اندھیرا نظر آرہا ہے۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کدھر جاؤں۔۔ “

“دیکھو سب سے پہلے تو تم یہ یاد کرنے کی کوشش کرو کے بابا نے ایسی کوئی بات کی تھی تم سے۔۔۔ “

“میں بتا رہی ہوں ناں۔۔۔ کبھی ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔  جرمنی شفٹ ہونے سے پہلے  وہ مجھے کافی کالز کرتے رہے۔۔۔  میں تو انکا فون بھی نہیں اٹھاتی تھی۔۔۔ وہ واٹس ایپ پہ وائس میسجز بھیجتے  وہ بھی کبھی نہیں سنے۔۔۔ اسکے بعد جرمنی آگئی۔۔ اور آتے ہی  موبائل نمبر بدل لیا۔۔ اس کے بعد کبھی رابطہ نہیں ہوا۔۔۔۔”

میں دماغ پہ زور  دے رہی تھی۔۔۔

“تم ان سے بات کیوں نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ ؟”

“بس۔۔۔۔ ہر بار انکی ایک ہی رٹ ہوتی کہ میں واپس آجاؤں۔۔ اور آکے شادی کرلوں۔۔۔ سب حمدان کی ماما کروا رہی تھیں۔۔۔ “

“واٹ۔۔۔ حمدان کی ماما تمہیں واپس کیوں بلانا چاہتی تھیں۔۔۔  تم جتنا دور رہیتی ان کے لیے اچھا تھا۔۔۔ “

“کیوں کہ وہ لوگ میری شادی کرنا چاہتے تھے۔۔۔ حم۔۔۔۔۔”

میں نے بات بیچ میں چھوڑ دی

“تمہارے بابا نے اورکوئی بات نہیں کی تم سے۔۔؟؟”

“نہیں بتا تو رہی ہوں۔۔ میں انکی کال اٹنڈ نہیں کرتی تھی۔۔۔  وہ وائس میسج کردیتے تھے واٹس ایپ پہ۔۔  “

“اور وائس میسجز میں بھی صرف یہی بات ہوتی تھی۔۔۔ “

وہ کسی ڈٹیکٹیوو کی طرح انویسٹگیشن کررہا تھا۔۔۔

“ڈونٹ نو۔۔۔ ! میں نے کبھی نہیں سنے   ان کے میسجز۔۔۔   جیسن اب بس کرو۔۔ ویسے ہی سر درد  کررہا ہے ۔۔۔ تم نے عجیب پوچھ گچھ شروع کردی ہے۔۔۔ “

میں چڑ گئی ہے

About Zoya Hassan

HI THIS IS ZOYA HASSAM

Leave a Comment

error: Content is protected !!