9
“اوکے۔۔ اوکے۔ ۔ اب تم ریسٹ کرو۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ فلحال واپس آنے کا پلان کینسل ۔۔۔ سب سے پہلے تمہیں اپنے دماغ کو ٹھنڈا کرنے ضرورت ہے۔۔ “
جیسن سے ڈسکس کرنے اور آنسوؤ ں بہانے کے بعد دل غبار ہلکا ہوا۔۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا ۔۔۔ ہوسکتا ہے میری ماما زندہ ہوں۔۔۔ مجھے انھیں تلاش کرنا چاہیے۔۔۔ لیکن سوال یہ تھا ۔۔۔ کیسے۔۔۔ کہاں سے۔۔۔ ؟؟
بیڈ پہ لیٹے ہوئے۔۔ میری نظریں چھت پہ جمی تھیں۔۔۔
“اب جب کچھ دن مزید رہنا ہی تو ہوٹل میں خوارہونا ضروری نہیں ہے۔۔۔ “
میں نے گھر واپس جانے کا ارادہ کیا۔۔۔ حمدان بھی وہاں نہیں رہیتا ۔۔۔ کسی اور کو برداشت کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔۔۔ میں نے بیگ اٹھایا ٹیکسی پکڑی ۔۔ کچھ دیر بعد گھر کے گیٹ پہ تھی۔۔۔
اس بار بیل بجتے ہی گیٹ کھل گیا۔۔ اندر کی تمام لائیٹس بند تھیں۔۔۔ اسی ملازم نے آکے سلام کیا۔۔
“لائیٹس کیوں آف ہیں۔۔۔ ؟”
” بی بی جی۔۔! بڑے صاحب جب تک تھے تب تک تو شام ہوتے ہی لائٹس آن ہوجاتی تھیں۔۔۔ لوگوں کا آنا جانا بھی رہیتا تھا۔۔ اب جب کوئی رہیتا ہی نہیں تو ہم بھی لائیٹیں بند رکھتے ہیں۔۔۔ “
میں سر ہلا تے ہوئے آگے بڑھ گئی۔۔۔۔ میرے داخل ہونے سے پہلے ملازم نے اندر کی تمام لائیٹس آن کردیں۔۔۔
“میں رخسانہ کو بلاتا ہوں۔۔۔ جلدی سو جاتی ہے پگلی۔۔۔!”
میں لاؤنج میں آگئی اور وہ سرونٹ کوارٹر زکی طرف بھاگا۔۔۔
اس گھر میں اب بھی وحشت کا سائے منڈلا رہے تھے۔۔۔
کچھ ہی منٹوں میں رخسانہ نے آکے سلام کیا۔۔
“مجھے پتا تھا آپ واپس آئیں گی۔۔۔ “
اس لڑکی کے چہرے پہ ہر وقت مسکراہٹ رہیتی تھی۔۔
“کھانا بنا لوں۔۔۔ ؟؟”
“نہیں۔۔۔ رہنے دو۔۔۔ باہر سے کچھ منگا لیتے ہیں۔۔ “
“ٹھیک ہے میں طارق کو بلاتی ہوں۔۔ وہ باہر سے کچھ لے آئے گا۔۔ تب تک میں بلیک کوفی لاتی ہوں۔۔۔ “
“بلیک کوفی رہنے دو ۔۔۔ بس پانی لے آؤ۔۔۔ “
طارق کو بار بھیجنے کی بجائے میں نے آن لائن پزا آرڈر کردیا۔۔
“رخسانہ۔۔۔! ٹی وی کے کنکشن کو کیا ہوا ہے۔۔ سیٹ اپ باکس نہیں چل رہا اسکا۔۔ ؟؟”
میں لاؤنج میں لگی بڑی سی سکرین کو آن کرنے کی کوشش کررہی تھی
“پتا نہیں۔۔۔۔ میں طارق سے پوچھ کے آتی ہوں۔۔۔ یہ تو سالوں سے بند پڑا ہے۔۔۔ بڑے صاحب بھی نہیں دیکھتے تھے ۔۔ “
“اچھا ۔۔۔ رہنے دو۔۔۔ صبح دیکھ لیں گے۔۔۔ “
میں نے ریموٹ واپس رکھ دیا۔۔۔
بار بار میری نظریں دیوار پہ آویزاں تصویر پہ جارہی تھیں۔۔ رخسانہ ایک کونے میں کھڑی تھی۔۔۔
“بیٹھ جاؤ کب تک کھڑی رہو گی۔۔۔ بلکہ تمہیں نیند آرہی ہوگی تم جا کے سو جاؤ۔۔ “
“نہیں مجھے نیند نہیں آرہی۔۔۔ آپ کھانا کھا لیں گی۔۔ اس کے بعد میں سونے جاؤں گی۔۔۔”
“اچھا بیٹھ تو جاؤ۔۔۔۔ “
میرے اشارہ کرنے پہ وہ نیچے بیٹھنے لگی۔۔۔
“نو ۔۔ نو۔۔ اوپر بیٹھو۔۔۔ دوبارہ کبھی ایسا مت کرنا۔۔۔ “
وہ میرے سخت روّیے سے گھبرا کے صوفے پہ بیٹھی۔۔۔ میری نظریں پھر سے تصویر پہ جم گئیں۔۔
“تمہیں پتا ہے۔۔ یہ تصویر کس نے لگوائی یہاں۔۔۔ ؟؟”
“جی۔۔۔! بڑے صاحب نے لگوائی تھی۔۔۔ ان دنوں میں نئی نئی آئی تھی۔۔۔ میں ہی سٹور سے یہ تصویر نکال کے لائی تھی۔۔۔ یہ تصویر دیکھ کے بڑے صاحب بہت خوش تھے ۔۔۔ پورا دن آپکے بارے میں باتیں کرتے رہے۔۔۔ تب سے ہی میرے دل میں آپ کو دیکھنے کی خواہش تھی۔۔۔۔ میں سوچتی تھی آپ بچپن میں اتنی حسیں تھیں تو جوانی میں کیسی ہوں گی۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ “
رخسانہ بہت باتونی تھی۔۔ لیکن اسکی زبان میٹھی تھی اس لیے باتیں سننے میں مزہ آرہا تھا۔۔ ورنہ اتنی دیر تو میں خود کو بھی برداشت نہیں کرتی۔۔۔
“لیکن کیا۔۔۔۔؟؟”
“کچھ نہیں کچھ نہیں۔۔۔۔ “
وہ ہڑبڑا گئی۔۔۔
“ڈرو نہیں۔۔ بتاؤ۔۔۔ بات پوری کرتے ہیں۔۔ “
“میں یہ کہہ رہی تھی۔۔۔ جیسی خیالی تصویر میں نے بنائی تھی آپکی۔۔ آپ ویسی نہیں ہیں۔۔۔ “
اسکی معصومیت اور صاف گوئی پہ ہنسی آگئی ۔۔۔۔۔ وہ شرمسار ہونے لگی
“میرا مطلب ہے کہ۔۔ اب شائد آپ اپنا خیال نہیں رکھتیں۔۔۔ “
“ہاں۔۔ رخسانہ۔۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ میں بالکل خیال نہیں رکھتی اپنا۔۔۔۔ “
پتا نہیں کیسے ۔۔۔ لیکن اس لڑکی نے میرا موڈ خوشگوار کردیا تھا۔۔۔ اسکے چہرے کے کچے پکے تاثرات دیکھ دیکھ کے میری ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔
اتنے میں طارق پزا لے کے اندر آگیا۔۔۔ میں ہینڈ بیگ سے پیسے نکالنے لگی۔۔
“بی بی جی۔۔۔! آپ رہنے دیں۔۔۔ میں نے ڈلیوری بوائے کو پیسے دے دیے ہیں۔۔ “
“نہیں ۔۔۔ نہیں۔۔ تم نے کیسے دے دیے۔۔۔ یہ لو ۔۔ رکھو۔۔ “
میں نے نوٹ اسکی طرف بڑھائے۔۔۔
“میں نے اپنی جیب سے نہیں دیے۔۔ حمدان صاحب گھر کا خرچہ دے جاتے ہیں۔۔ ان پیسوں میں سے دیے ہیں۔۔۔ “
وہ یہ کہتے ہوئے باہر چلا گیا۔۔۔ میں نے رخسانہ کو پزا کھانے کا کہا لیکن۔۔ وہ ابھی تک شرمندگی سے نظریں چرا رہی تھی۔۔
“میں نے بڑے صاحب والا روم صاف کرادیا ہے۔۔۔۔ آپ وہیں آرام کیجئے گا۔۔۔ “
“میں بابا کے روم میں نہیں رہوں گی۔۔۔ کل تم میرا روم صاف کرا دینا۔۔ تمہیں پتا ہے میرے روم کا۔۔۔ ؟؟”
“جی ۔۔ جی۔۔ بالکل پتا ہے۔۔۔ مہینے میں دو بار صفائی کی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی بڑے صاحب نے۔۔۔ آپ کی ہر چیز اپنی جگہ پہ ہے۔۔ کل میں اچھی طرح سے صفائی کرا دوں گی۔۔۔۔ لیکن آج آپ بڑے صاحب کے روم میں سو جائیں۔۔۔ “
“میں آج یہیں سو رہی ہوں۔۔ تم بس مجھے تکیہ اور چادر لا دو۔۔۔ “
“یہاں کیسے۔۔۔۔ “
وہ حیران ہوئی۔۔۔ لیکن حکم بجا لانا فرض تھا۔۔ اس لیے وہ چلی گئی۔۔۔
رخسانہ کے جاتے ہی میں نے تمام لائٹس آف کیں ۔۔۔ گلاس وال کے پاس پڑے کاؤچ پہ ٹانگیں پھیلا دیں۔۔۔ دودھیا چاند شفاف شیشوں سے جھانک رہا تھا۔۔ تھوڑی دیر کے لیے مائنڈ ڈائیورٹ ہوا۔۔۔ لیکن گھوم پھر کے دماغ پھر سے اسی بند گلی میں لے گیا۔۔۔
“کہا ں سے پتا چلے گا۔۔۔۔ شائد بابا ان دنوں یہی بتانے کے لیے کالز کررہے تھے۔۔۔ اور میں نے ان سے بات نہیں کی۔۔۔۔ کاش۔۔۔! وہ وقت پھر سے لوٹ آئے۔۔۔”
زندگی میں پہلی بار میں اپنے کسی عمل سے اس قدر پچھتا رہی تھی۔۔۔
“واٹس ایپ میسجز۔۔۔۔!!!”
میرے دماغ کی بتی روشن ہوئی۔۔۔
“اگر سچ مچ بابا۔۔۔ مجھے یہی بتانا چاہتے تھے تو ضرور انھوں نے واٹس ایپ میسجز میں ذکر کیا ہوگا۔۔۔ ” میں اٹھ کے بیٹھ گئی۔۔۔